سپرٹ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام ہمیں من مانا اور بدنیتی پر مبنی لگتا ہے اور ان وجوہ کو جاننے کا تقاضہ کرتا ہے جن کی بنا پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔
بیان کردہ اسباب کا جائزہ
سمبلی کو توڑنے اور وزیر اعظم اور اسکی کابینہ کو برداشت کرنے کی جو وجوہات ۲۹ تاریخ کے خطاب اور ۳۰۰ تاریخ کی تقریر میں بیان کی گئی ہیں ان میں وہ الفاظ کہمیں دکھائی نہیں دیتے جن کا
تذکرہ دستور میں کیا گیا ہے۔ یعنی
“A situation has arisen in which the Federation cannot be carried on in accordance with the provi- sions of the Constitution.”
ایک ایسی صور تحال پیدا ہو گئی ہو جس میں وفاق کی حکومت دستور کے احکام کے
مطابق نہ چلائی جا سکتی ہو) لیکن یہاں آئینی تعطل کی بات نہیں کھی گئی ہے۔ اس کے بجائے یہاں پہلی بات یہ کھی گئی ہے کہ یہ اسمبلی بد عنوان تھی، انہوں نے بد عنوانیاں پھیلائیں، پلاٹ لیے، قرضے معاف کروائے، اس طرح رشوت بڑھی۔ ٹھیک ہے یہ تمام چیزیں ہی بری ہیں اور جس کسی نے ان کا ارتکاب کیا ہے اس پر قانون کی مکمل گرفت ہونی چاہیے اس کو پوری پوری سزاملنی چاہیے ، چاہے وہ وزیر اعظم پر ہوں وزیر ہوں، وزیر اعلی، اسمبلی کے ممبر یادہ سینیٹر ہوں کوئی بھی ہوں لیکن ان تمام باتوں کا لب یہ نہیں ہے کہ آئینی مشینری کے معطل ہونے سے وفاق کے نظام میں رخنہ پڑ گیا تھا۔ اس لے کہ دستور میں اس بت کی پوری گنجائش موجود ہے کہ دوسرے شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے، نئی کابینہ بن سکتی ہے اور نئی انتظامیہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اس کی بجائے آپ نے مرکزی اسملی، مرکزی حکومت، صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی حکومتوں کو بیک بینی دو گوش ختم کر دیا ہے اور ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اسی ” نام نهاد به عنوان حکومت ” کے ایک فرد کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ وزیر اعلیٰ، کابینہ یا اسمبلی میں سے کون بد عنوان تھا؟ یہ اس اقدام کو کرنے والوں کو طے کرنا ہے۔ ہم تو اس اسملی اور لوگوں میں سے، جنہیں بدعنوان قرار دیا گیا ایک شخص کو نگران
وزیر اعلیٰ بنتے دیکھتے ہیں۔ پھر آپ دو ہفتے اپنی نگران حکومت بنانے کے لیے لیتے ہیں۔ دستور میں اس بات کی کوئی
صدر کے صوابدیدی اختیارات
₨ 0
سپرٹ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام ہمیں من مانا اور بدنیتی پر مبنی لگتا ہے اور ان وجوہ کو جاننے کا تقاضہ کرتا ہے جن کی بنا پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔
بیان کردہ اسباب کا جائزہ
سمبلی کو توڑنے اور وزیر اعظم اور اسکی کابینہ کو برداشت کرنے کی جو وجوہات ۲۹ تاریخ کے خطاب اور ۳۰۰ تاریخ کی تقریر میں بیان کی گئی ہیں ان میں وہ الفاظ کہمیں دکھائی نہیں دیتے جن کا
تذکرہ دستور میں کیا گیا ہے۔ یعنی
“A situation has arisen in which the Federation cannot be carried on in accordance with the provi- sions of the Constitution.”
ایک ایسی صور تحال پیدا ہو گئی ہو جس میں وفاق کی حکومت دستور کے احکام کے
مطابق نہ چلائی جا سکتی ہو) لیکن یہاں آئینی تعطل کی بات نہیں کھی گئی ہے۔ اس کے بجائے یہاں پہلی بات یہ کھی گئی ہے کہ یہ اسمبلی بد عنوان تھی، انہوں نے بد عنوانیاں پھیلائیں، پلاٹ لیے، قرضے معاف کروائے، اس طرح رشوت بڑھی۔ ٹھیک ہے یہ تمام چیزیں ہی بری ہیں اور جس کسی نے ان کا ارتکاب کیا ہے اس پر قانون کی مکمل گرفت ہونی چاہیے اس کو پوری پوری سزاملنی چاہیے ، چاہے وہ وزیر اعظم پر ہوں وزیر ہوں، وزیر اعلی، اسمبلی کے ممبر یادہ سینیٹر ہوں کوئی بھی ہوں لیکن ان تمام باتوں کا لب یہ نہیں ہے کہ آئینی مشینری کے معطل ہونے سے وفاق کے نظام میں رخنہ پڑ گیا تھا۔ اس لے کہ دستور میں اس بت کی پوری گنجائش موجود ہے کہ دوسرے شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے، نئی کابینہ بن سکتی ہے اور نئی انتظامیہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اس کی بجائے آپ نے مرکزی اسملی، مرکزی حکومت، صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی حکومتوں کو بیک بینی دو گوش ختم کر دیا ہے اور ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اسی ” نام نهاد به عنوان حکومت ” کے ایک فرد کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ وزیر اعلیٰ، کابینہ یا اسمبلی میں سے کون بد عنوان تھا؟ یہ اس اقدام کو کرنے والوں کو طے کرنا ہے۔ ہم تو اس اسملی اور لوگوں میں سے، جنہیں بدعنوان قرار دیا گیا ایک شخص کو نگران
وزیر اعلیٰ بنتے دیکھتے ہیں۔ پھر آپ دو ہفتے اپنی نگران حکومت بنانے کے لیے لیتے ہیں۔ دستور میں اس بات کی کوئی
Reviews
There are no reviews yet.