عدلیہ کی آزادی اور ججوں کا تقرر

 0

ترجمان القرآن، فروری ۳۱۱ ء
۲۶
شذرات
کو اپنا استعفا لکھ کر دے دیں ، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تا کہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ۸ اویں اور 19 ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صواب دیدی، اختیار (discretion) حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کو، نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقہ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تا کہ کسی ایک فردیا ادارے کو بالا دستی حاصل نہ ہو۔ ہر معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی: ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہر پہلو سے بحث کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔ تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا حصہ ہو گا محض کسی ایک کا نہیں ۔ اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں اور مجھے دکھ سے سیبات کہنی پڑتی ہے کہ بہت سے وکلا نے جو لائق بھی ہیں اور محترم و معتبر بھی، ان میں سے بعض نے اپنے بیانات اور خصوصیت سے میڈیا ٹاک شوز میں یہ دعوی کیا ہے کہ ”دنیا میں کہیں بھی پارلیمنٹ کا کردار نہیں پایا جاتا اور یہ کہ ان نامزدگیوں کو خالص عدلیہ کی تجویز پر منحصر ہونا چاہیے۔ یہ بات امر واقعہ کے خلاف ہے۔ Parliaments of The World کی جلد دوم کا آخری باب اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس کی رو سے دنیا کے ان ۷۰ ممالک میں جن کے جمہوری نظام کی تفصیلات اس میں دی گئی ہیں، ۳۲ ایسے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ کا کوئی نہ کوئی واضح کردار ہے، مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس اور بالینڈ میں پارلیمنٹ با قاعدہ عدلیہ کو منتخب کرتی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور بر طانیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ امریکا میں سینیٹر حضرات صدر کو نجی طور پر نام تجویز کرتے ہیں اور پھر باضابطہ طور پر صدر نام تجویز کرتا ہے جسے سینیٹ منظور کرتا ہے۔ اسی طرح ججوں کی معزولی کا بھی سینیٹ ہی کو اختیار ہے۔ برطانیہ کی مثال میجے بر طانیہ میں صدیوں سے لارڈ چانسلر جو ایک سیاسی منصب ہے، جو دارالامرا کا اسپیکر ہوتا ہے وہ ساری سفارشات دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں ۲۰۰۵ ء میں نیا دستوری ایکٹ منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت اب یہ اختیار ایک جوڈیشل کمیشن کو سونپا گیا ہے۔ اس

SKU: 6849817303b2c8619f33cc78 Categories: , ,

ترجمان القرآن، فروری ۳۱۱ ء
۲۶
شذرات
کو اپنا استعفا لکھ کر دے دیں ، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تا کہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ۸ اویں اور 19 ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صواب دیدی، اختیار (discretion) حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کو، نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقہ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تا کہ کسی ایک فردیا ادارے کو بالا دستی حاصل نہ ہو۔ ہر معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی: ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہر پہلو سے بحث کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔ تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا حصہ ہو گا محض کسی ایک کا نہیں ۔ اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں اور مجھے دکھ سے سیبات کہنی پڑتی ہے کہ بہت سے وکلا نے جو لائق بھی ہیں اور محترم و معتبر بھی، ان میں سے بعض نے اپنے بیانات اور خصوصیت سے میڈیا ٹاک شوز میں یہ دعوی کیا ہے کہ ”دنیا میں کہیں بھی پارلیمنٹ کا کردار نہیں پایا جاتا اور یہ کہ ان نامزدگیوں کو خالص عدلیہ کی تجویز پر منحصر ہونا چاہیے۔ یہ بات امر واقعہ کے خلاف ہے۔ Parliaments of The World کی جلد دوم کا آخری باب اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس کی رو سے دنیا کے ان ۷۰ ممالک میں جن کے جمہوری نظام کی تفصیلات اس میں دی گئی ہیں، ۳۲ ایسے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ کا کوئی نہ کوئی واضح کردار ہے، مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس اور بالینڈ میں پارلیمنٹ با قاعدہ عدلیہ کو منتخب کرتی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور بر طانیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ امریکا میں سینیٹر حضرات صدر کو نجی طور پر نام تجویز کرتے ہیں اور پھر باضابطہ طور پر صدر نام تجویز کرتا ہے جسے سینیٹ منظور کرتا ہے۔ اسی طرح ججوں کی معزولی کا بھی سینیٹ ہی کو اختیار ہے۔ برطانیہ کی مثال میجے بر طانیہ میں صدیوں سے لارڈ چانسلر جو ایک سیاسی منصب ہے، جو دارالامرا کا اسپیکر ہوتا ہے وہ ساری سفارشات دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں ۲۰۰۵ ء میں نیا دستوری ایکٹ منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت اب یہ اختیار ایک جوڈیشل کمیشن کو سونپا گیا ہے۔ اس

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “عدلیہ کی آزادی اور ججوں کا تقرر”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »