قبائلی علاقوں کے حقوق اور نشستوں کی تقسیم

 0

مسئلہ ہے اور اس پر حکومت اور اس ایوان کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مرکزی پارلیمان میں ان کو نمائندگی دی گئی ہے لیکن صوبوں میں نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ صوبہ سرحد کا حصہ شمار نہیں کیے جاتے۔ یا تو آپ ان کو ایک صوبہ بنائیے یا ان کا انضمام لیجئے۔ انہیں انتظامی اور عدالتی دائرہ اختیار میں لائیے، انہیں حقوق اور ووٹ کا حق دیجئے اور یہ حق آبادی کے تمام افراد کو ملنا چاہیے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ اس حق کو ملکوں، تعلیم یافته، با دولت مند افراد تک محدود کر دیا جائے۔ یہ ساری کی ساری چیزیں از کار رفتہ ہیں۔ ہر بالغ شہری کو اسی طرح ووٹ کا حق ملنا چاہیے، جس طرح پاکستان کے باقی تمام حصوں میں افراد کو حاصل ہے۔ اس وقت دستور ہی کا سہارا لیا گیا ہے اس لیے کہ دستور کی غالباً وفعہ ان کی
شق ۳ یہ کہتی ہے
“The seats in the National Assembly shall be allo- cated to each Province, the Federally Adminis- tered Tribal Areas and the Federal Capital on the basis of population in accordance with the last preceding census officially published.”
(قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ گذشتہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لیے متعین کی جائیں گی۔) یہ وہ دفعہ ہے جس کی بناء پر الیکشن کمیشن نے سیٹوں کی تقسیم میں تغیر کیا ہے۔ بادی النظر میں وہاں مردم شماری درست نہیں ہوئی۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ جب ملک کے ہر علاقے کی آبادی بڑھ رہی ہو تو وہاں آبادی نہ بڑھی ہو۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتقال آبادی واقع ہوتی ہے۔ کچھ لوگ باہر گئے ہیں۔ لیکن یہ محض مور لنگ ہے۔ اس لیے کہ ملک کے تقریباً ہر علاقے کے لوگ باہر گئے ہیں، جس سے آبادی کا مجموعی تناسب متاثر نہیں ہوا۔ باہر جانے والے افراد صرف نوجوانوں میں سے تھے ، خاندان کے تمام ممبر نہیں۔
اسباب کی بناء پر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس علاقے کا رحمان ملک کے باقی تمام علاقوں سے بنا
ان
مختلف ہو۔ اس وجہ سے یہاں کی نشستوں کو ۸ سے گھٹا کرہ کرنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوں
۲۵۰

SKU: 6849817b03b2c8619f33cd2e Categories: , ,

مسئلہ ہے اور اس پر حکومت اور اس ایوان کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مرکزی پارلیمان میں ان کو نمائندگی دی گئی ہے لیکن صوبوں میں نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ صوبہ سرحد کا حصہ شمار نہیں کیے جاتے۔ یا تو آپ ان کو ایک صوبہ بنائیے یا ان کا انضمام لیجئے۔ انہیں انتظامی اور عدالتی دائرہ اختیار میں لائیے، انہیں حقوق اور ووٹ کا حق دیجئے اور یہ حق آبادی کے تمام افراد کو ملنا چاہیے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ اس حق کو ملکوں، تعلیم یافته، با دولت مند افراد تک محدود کر دیا جائے۔ یہ ساری کی ساری چیزیں از کار رفتہ ہیں۔ ہر بالغ شہری کو اسی طرح ووٹ کا حق ملنا چاہیے، جس طرح پاکستان کے باقی تمام حصوں میں افراد کو حاصل ہے۔ اس وقت دستور ہی کا سہارا لیا گیا ہے اس لیے کہ دستور کی غالباً وفعہ ان کی
شق ۳ یہ کہتی ہے
“The seats in the National Assembly shall be allo- cated to each Province, the Federally Adminis- tered Tribal Areas and the Federal Capital on the basis of population in accordance with the last preceding census officially published.”
(قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ گذشتہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لیے متعین کی جائیں گی۔) یہ وہ دفعہ ہے جس کی بناء پر الیکشن کمیشن نے سیٹوں کی تقسیم میں تغیر کیا ہے۔ بادی النظر میں وہاں مردم شماری درست نہیں ہوئی۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ جب ملک کے ہر علاقے کی آبادی بڑھ رہی ہو تو وہاں آبادی نہ بڑھی ہو۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتقال آبادی واقع ہوتی ہے۔ کچھ لوگ باہر گئے ہیں۔ لیکن یہ محض مور لنگ ہے۔ اس لیے کہ ملک کے تقریباً ہر علاقے کے لوگ باہر گئے ہیں، جس سے آبادی کا مجموعی تناسب متاثر نہیں ہوا۔ باہر جانے والے افراد صرف نوجوانوں میں سے تھے ، خاندان کے تمام ممبر نہیں۔
اسباب کی بناء پر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس علاقے کا رحمان ملک کے باقی تمام علاقوں سے بنا
ان
مختلف ہو۔ اس وجہ سے یہاں کی نشستوں کو ۸ سے گھٹا کرہ کرنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوں
۲۵۰

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “قبائلی علاقوں کے حقوق اور نشستوں کی تقسیم”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »