قومی زبان عدالت عظمی کا تاریخی فیضلہ

 0

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۱۵ء
2.
قومی زبان: عدالت عظمی کا تاریخی فیصلہ
انگریزی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے اس پورے عمل کو سبوتاژ کیا اور دستور کے نافذ ہونے کے ۴۲ سال بعد بھی قوم انگریزی زبان کی غلامی میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کام کرنے والے تین جوں پر مشتمل بینچ ( جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسی) نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو ایک تاریخی فیصلے میں قومی زبان کو اس کا اصل کردار دلانے کے لیے جو فیصلہ کیا ہے، وہ بڑا خوش آئیند ہے۔ قومی احساسات اور عزائم کا حقیقی ترجمان ہے اور اگر اس پر دیانت اور تند ہی سے عمل کیا جائے تو ہماری تاریخ میں ایک روشن اور سنہرے باب کا اضافہ کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلوؤں کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس امر کی بھی نشان دہی کریں کہ اس پر عمل کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستور اور اس میں قومی زبان کے بارے میں طے کردہ پالیسی کو بڑے واضح اور واشگاف انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ دستور نے جو باتیں طے کر دی ہیں وہ یہ ہیں:
الف: اردو قومی زبان ہے اور اسے ہی لازمی طور پر تمام حکومتی ، عدالتی ، انتظامی اور تعلیمی دائروں میں اور ہر سطح پر استعمال ہونا چاہیے۔
ب: یہ ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دستوری حکم ہے جس پر ۱۵ برس کے اندر اندر عمل ہو جانا چاہیے تھا۔ ج انگریزی زبان میں کاروبار ریاست چلانے کی اجازت صرف ۱۵ سال کے لیے تھی۔ اس طرح ۱۹۸۸ء کے بعد سے دستور کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
و
قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ترقی بھی ایک ضروری امر ہے جس کی طرف خاطر خواہ توجہ کی ضرورت ہے۔ دستور: نظام حکومت ، ریاستی انتظامات اور کارروائیوں اور تعلیم کے نظام کے لیے ایک فریم ورک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت کی مناسبت سے دوسری زبانوں، خصوصیت سے انگریزی کی تعلیم اور حسب ضرورت استعمال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگر استعماری حکمرانوں کی زبان کو ز بر دستی قوم پر

SKU: 6849817303b2c8619f33cb60 Categories: , ,

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۱۵ء
2.
قومی زبان: عدالت عظمی کا تاریخی فیصلہ
انگریزی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے اس پورے عمل کو سبوتاژ کیا اور دستور کے نافذ ہونے کے ۴۲ سال بعد بھی قوم انگریزی زبان کی غلامی میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کام کرنے والے تین جوں پر مشتمل بینچ ( جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسی) نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو ایک تاریخی فیصلے میں قومی زبان کو اس کا اصل کردار دلانے کے لیے جو فیصلہ کیا ہے، وہ بڑا خوش آئیند ہے۔ قومی احساسات اور عزائم کا حقیقی ترجمان ہے اور اگر اس پر دیانت اور تند ہی سے عمل کیا جائے تو ہماری تاریخ میں ایک روشن اور سنہرے باب کا اضافہ کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلوؤں کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس امر کی بھی نشان دہی کریں کہ اس پر عمل کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستور اور اس میں قومی زبان کے بارے میں طے کردہ پالیسی کو بڑے واضح اور واشگاف انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ دستور نے جو باتیں طے کر دی ہیں وہ یہ ہیں:
الف: اردو قومی زبان ہے اور اسے ہی لازمی طور پر تمام حکومتی ، عدالتی ، انتظامی اور تعلیمی دائروں میں اور ہر سطح پر استعمال ہونا چاہیے۔
ب: یہ ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دستوری حکم ہے جس پر ۱۵ برس کے اندر اندر عمل ہو جانا چاہیے تھا۔ ج انگریزی زبان میں کاروبار ریاست چلانے کی اجازت صرف ۱۵ سال کے لیے تھی۔ اس طرح ۱۹۸۸ء کے بعد سے دستور کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
و
قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ترقی بھی ایک ضروری امر ہے جس کی طرف خاطر خواہ توجہ کی ضرورت ہے۔ دستور: نظام حکومت ، ریاستی انتظامات اور کارروائیوں اور تعلیم کے نظام کے لیے ایک فریم ورک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت کی مناسبت سے دوسری زبانوں، خصوصیت سے انگریزی کی تعلیم اور حسب ضرورت استعمال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگر استعماری حکمرانوں کی زبان کو ز بر دستی قوم پر

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “قومی زبان عدالت عظمی کا تاریخی فیضلہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »