مرکزی بجٹ ۲۰۱۳ء _ مایوس کن آغاز

 0

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۱۳ء
۶
اشارات
استحکام اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف قوم کو رواں دواں کر سکیں۔
سوم: عوام نے ملک کو معلق پارلیمنٹ کی آزمائیش میں نہیں ڈالا۔ نہ تو کسی پارٹی کو ایسی اکثریت فراہم کی جس کے بل بوتے پر اسے من مانی کرنے کا موقع مل جائے اور نہ ایسی بے بسی کی حالت والا اقتدار ہی دیا کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تائید کی ایسی محتاج ہو کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو، اور ان کے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہو۔
عوام کے اس پیغام کا تقاضا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا بجٹ ایسا بنائے جو عوام کی توقعات اور ضروریات پر پورا اترتا ہو اور ملک کی ترقی اور استحکام کے باب میں ایک واضح وژن، مناسب پالیسیاں اور ایسا نقشہ کار ( روڈ میپ ) فراہم کرے جس سے تبدیلی کا سفر مؤثر ہو اور اس حالت میں شروع ہو کہ سب کو نظر آئے ۔ عوام کسی معجزے کے طالب نہیں لیکن وہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ تبدیلی کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا جائے اور خوش نما الفاظ اور سیاسی شعبدہ گرمی سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ عوام اس کے عملی اثرات دیکھ سکیں۔ بلاشبہ یہ قیادت کے لیے بڑی آزمائش ہے لیکن وقت کا یہی تقاضا ہے اور اسی میزان پر حکومت کے بجٹ، اس کی پالیسیوں اور اس کے عملی اقدامات کو تولا اور پر کھا جائے گا۔
قوم کی توقعات اور بجٹ
۱۲ جون ۲۰۱۳ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو اس اعتراف کے باوجود کہ نئی حکومت کو ورثے میں جو معیشت اور سوسائٹی ملی، وہ بڑے بڑے حال میں تھی اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ بری طرح متاثر تھی ، وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ میں عوام کی خواہشات کے مطابق نیا باب کھولنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن اور اس تبدیلی کے آغاز کا سامان کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے عوام خواہش مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج کی روشنی میں انتقال اقتدار اور نئے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے جو وقت وزیرخزانہ کو ملا وہ بہت کم تھا اور انھیں عبوری دور کی ٹیم کے کیے ہوئے ہوم ورک ہی کی بنیاد پر رواں سال کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی معاشی ٹیم نے تو انتخاب سے قبل محنت اور تیاری

SKU: 6849817303b2c8619f33c8db Categories: , ,

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۱۳ء
۶
اشارات
استحکام اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف قوم کو رواں دواں کر سکیں۔
سوم: عوام نے ملک کو معلق پارلیمنٹ کی آزمائیش میں نہیں ڈالا۔ نہ تو کسی پارٹی کو ایسی اکثریت فراہم کی جس کے بل بوتے پر اسے من مانی کرنے کا موقع مل جائے اور نہ ایسی بے بسی کی حالت والا اقتدار ہی دیا کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تائید کی ایسی محتاج ہو کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو، اور ان کے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہو۔
عوام کے اس پیغام کا تقاضا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا بجٹ ایسا بنائے جو عوام کی توقعات اور ضروریات پر پورا اترتا ہو اور ملک کی ترقی اور استحکام کے باب میں ایک واضح وژن، مناسب پالیسیاں اور ایسا نقشہ کار ( روڈ میپ ) فراہم کرے جس سے تبدیلی کا سفر مؤثر ہو اور اس حالت میں شروع ہو کہ سب کو نظر آئے ۔ عوام کسی معجزے کے طالب نہیں لیکن وہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ تبدیلی کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا جائے اور خوش نما الفاظ اور سیاسی شعبدہ گرمی سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ عوام اس کے عملی اثرات دیکھ سکیں۔ بلاشبہ یہ قیادت کے لیے بڑی آزمائش ہے لیکن وقت کا یہی تقاضا ہے اور اسی میزان پر حکومت کے بجٹ، اس کی پالیسیوں اور اس کے عملی اقدامات کو تولا اور پر کھا جائے گا۔
قوم کی توقعات اور بجٹ
۱۲ جون ۲۰۱۳ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو اس اعتراف کے باوجود کہ نئی حکومت کو ورثے میں جو معیشت اور سوسائٹی ملی، وہ بڑے بڑے حال میں تھی اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ بری طرح متاثر تھی ، وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ میں عوام کی خواہشات کے مطابق نیا باب کھولنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن اور اس تبدیلی کے آغاز کا سامان کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے عوام خواہش مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج کی روشنی میں انتقال اقتدار اور نئے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے جو وقت وزیرخزانہ کو ملا وہ بہت کم تھا اور انھیں عبوری دور کی ٹیم کے کیے ہوئے ہوم ورک ہی کی بنیاد پر رواں سال کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی معاشی ٹیم نے تو انتخاب سے قبل محنت اور تیاری

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “مرکزی بجٹ ۲۰۱۳ء _ مایوس کن آغاز”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »