مسلم معاشرے کا انتشار

 0

ایک خاندان ہی نہیں پورا ملک اس کرب ناک عمل سے گزرا ہے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی یہ ٹرائل جاری ہے۔ گویا دو نظریات اور دو تہذیبی روایات دست و گریبان ہیں! اس طرح یہ واقعہ محض ایک فرد یا ایک خاندان کا مسئلہ نہیں رہا ہے، بلکہ ایک ایسی بحث کا عنوان بن گیا ہے جس کی زد میں ہمارا خاندانی نظام بلکہ پوری اسلامی معاشرت ہے۔ نیز اجتماعی اصلاح اور بگاڑ کے سلسلے میں والدین عدالت اور صحافت کے رول اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی غور و فکر کے متعدد گوشے ہیں جو اس قضیے میں سامنے آئے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر تفکر اور عبرت کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اصلاح احوال کے لیے مناسب تدابیر اور اقدامات کی نشان دہی کی جاسکے۔ زندگی کے ان تلخ حقائق اور معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے صرف نظر کرنا یا ان پر پردہ ڈالنا مسائل کا حل نہیں۔۔۔ آنکھیں بند کرنے سے خطرات کبھی ٹلا نہیں کرتے، ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی تاریکیوں کو روشنی سے بدل سکتا ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص اور صبر و ہمت سے علاج کا سامان کیا جائے۔
جن خاندانی معاشرتی اور تہذیبی مسائل سے اس وقت ہمارا معاشرہ دوچار ہے وہ محض کسی خاص فرد یا چند افراد اور خاندانوں کا معاملہ نہیں اور مسئلہ بھی صرف یہ نہیں ہے کہ ایک مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں یا ولی کی مرضی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ بلاشبہ یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور شریعت نے ان کے بارے میں غیر مبہم رہنمائی فراہم کی ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں ایسے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ بحیثیت مجموعی خاندانی نظام اور معاشرے کی عمومی صحت کی کیا کیفیت ہے؟ اسلام نے عائلی زندگی اور معاشرت کے بارے میں جو اخلاقی اور قانونی ہدایات دی ہیں، ان کا فہم و ادراک اور ان پر عمل کی کیا کیفیت ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور شریعت اس کے احکام اور ان کی روح کی پاسداری کے باب میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ معاشرہ اسلام سے مطابقت اور ہم آہنگی کی طرف جا رہا ہے یا انحراف اور بغاوت کی سمت؟ ان حالات میں مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی کیا ذمہ داری ہے؟ والدین، اساتذہ علما ارباب صحافت، سیاسی

SKU: 6849817303b2c8619f33cb88 Categories: , ,

ایک خاندان ہی نہیں پورا ملک اس کرب ناک عمل سے گزرا ہے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی یہ ٹرائل جاری ہے۔ گویا دو نظریات اور دو تہذیبی روایات دست و گریبان ہیں! اس طرح یہ واقعہ محض ایک فرد یا ایک خاندان کا مسئلہ نہیں رہا ہے، بلکہ ایک ایسی بحث کا عنوان بن گیا ہے جس کی زد میں ہمارا خاندانی نظام بلکہ پوری اسلامی معاشرت ہے۔ نیز اجتماعی اصلاح اور بگاڑ کے سلسلے میں والدین عدالت اور صحافت کے رول اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی غور و فکر کے متعدد گوشے ہیں جو اس قضیے میں سامنے آئے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر تفکر اور عبرت کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اصلاح احوال کے لیے مناسب تدابیر اور اقدامات کی نشان دہی کی جاسکے۔ زندگی کے ان تلخ حقائق اور معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے صرف نظر کرنا یا ان پر پردہ ڈالنا مسائل کا حل نہیں۔۔۔ آنکھیں بند کرنے سے خطرات کبھی ٹلا نہیں کرتے، ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی تاریکیوں کو روشنی سے بدل سکتا ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص اور صبر و ہمت سے علاج کا سامان کیا جائے۔
جن خاندانی معاشرتی اور تہذیبی مسائل سے اس وقت ہمارا معاشرہ دوچار ہے وہ محض کسی خاص فرد یا چند افراد اور خاندانوں کا معاملہ نہیں اور مسئلہ بھی صرف یہ نہیں ہے کہ ایک مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں یا ولی کی مرضی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ بلاشبہ یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور شریعت نے ان کے بارے میں غیر مبہم رہنمائی فراہم کی ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں ایسے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ بحیثیت مجموعی خاندانی نظام اور معاشرے کی عمومی صحت کی کیا کیفیت ہے؟ اسلام نے عائلی زندگی اور معاشرت کے بارے میں جو اخلاقی اور قانونی ہدایات دی ہیں، ان کا فہم و ادراک اور ان پر عمل کی کیا کیفیت ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور شریعت اس کے احکام اور ان کی روح کی پاسداری کے باب میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ معاشرہ اسلام سے مطابقت اور ہم آہنگی کی طرف جا رہا ہے یا انحراف اور بغاوت کی سمت؟ ان حالات میں مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی کیا ذمہ داری ہے؟ والدین، اساتذہ علما ارباب صحافت، سیاسی

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “مسلم معاشرے کا انتشار”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »