ماہنامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۹۸
۵۵
مولانا امین احسن اصلاحی کی یاد میں
تھانوی سے بیعت کی تو اس کے بعد ملاقات میں خاصی نوک جھونک رہی۔ فرمانے لگے کہ جب سید صاحب نے مجھ سے بہ اصرار کہا کہ تم بھی سنجیدگی سے بیعت کے بارے میں سوچو تو میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ ” آپ ہاتھ اٹھا ئیں اور میں بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ اے میرے رب! جب میری یہ حالت ہو جائے کہ میں اپنی عقل کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں دے دوں تو اس سے پہلے مجھے اٹھا لیجیو۔ کہنے لگے کہ سلیمان ندوی دم بخود ہو گئے اور پھر کبھی اس مسئلے پر بات نہ ہوئی۔۔۔ یہ واقعات مولانا اصلاحی کی شخصیت کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں جس کا تعلق بیک وقت عزت نفس، خود اعتمادی اور طبیعت
کی شوخی سے ہے۔ اصلاحی صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلو ان کی سادگی اور قناعت ہے۔ انھوں نے دنیا کی کبھی طلب نہیں کی۔ جب دنیا دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے گئی تب بھی انھوں نے دنیا کو گھاس نہیں ڈالی۔ نہایت سادہ انداز میں زندگی گزاری۔ ضروریات کو محدود رکھا۔ جو مل گیا اس پر گزارہ کیا۔ رحمان پورہ لاہور میں جہاں وہ اس زمانے میں مقیم تھے، بارہا ان کے گھر جانے کا موقع ملا اور ہمیشہ ان کی سادہ زندگی پر رشک آیا۔ روایت ہے کہ جب شیخوپورہ میں اپنی اہلیہ کے زرعی فارم (رحمان آباد) منتقل ہو گئے، جہاں تدبر قرآن کی تحریر تسوید کا بیشتر کام ہوا۔ یہاں بجلی کی سہولت بھی نہ تھی لیکن مولانا اصلاحی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے اور اپنی دھن میں لگے رہے ۔
دنيا
امیر ہے
اے
میرے دام خیال میں بے خبر مقید دنیا نہیں ہوں میں
سادگی اور قناعت اپنی جگہ لیکن مولانا کی زندگی میں بلا کی شائستگی، نفاست اور سلیقہ تھا۔ لباس، غذا گفتگو تحریر، ہر چیز صاف ستھری۔۔۔ گویا زندگی ایک آرٹ ہے جس میں سادگی تو ہے لیکن سلیقہ اور تزئین کی کمی نہیں۔ روایت ہے کہ مولانا اپنے استعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی سخت موحد تھے اور اپنے ہی گھر میں ان کی ایک جداگانہ دنیا تھی جس میں کسی دوسرے کو دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی۔ گویا اس معاملے میں ان کا مزاج کچھ اکبر بادشاہ جیسا تھا، جس نے ہاتھی پر بیٹھنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ اس کا کنٹرول فیل بان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوان بادشاہ نے کہا تھا کہ جس سواری کی لگام میرے ہاتھ میں نہ ہو، میں اس پر سواری نہیں کرتا۔ مولانا بھی اپنی ایک جداگانہ مملکت رکھتے تھے اور اس میں زمام کار ان کے اپنے ہاتھوں میں رہتی تھی۔ جس طرح وہ عقل کی باگ کسی دوسرے کو سوچنے پر راضی نہ تھے اسی طرح نجی ر شخصی معاملات میں بھی شرکت گوارا نہیں کرتے تھے اور نہ کسی پر بوجھ بننے کو تیار تھے۔ مولانا اصلاحی کی زندگی میں عقل و ارادہ اور خودی اور عزت نفس کے باوجود دل اور دماغ کا بڑا حسین
اور
مولانا امین احسن اصلاحی کی یاد میں
₨ 0
ماہنامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۹۸
۵۵
مولانا امین احسن اصلاحی کی یاد میں
تھانوی سے بیعت کی تو اس کے بعد ملاقات میں خاصی نوک جھونک رہی۔ فرمانے لگے کہ جب سید صاحب نے مجھ سے بہ اصرار کہا کہ تم بھی سنجیدگی سے بیعت کے بارے میں سوچو تو میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ ” آپ ہاتھ اٹھا ئیں اور میں بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ اے میرے رب! جب میری یہ حالت ہو جائے کہ میں اپنی عقل کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں دے دوں تو اس سے پہلے مجھے اٹھا لیجیو۔ کہنے لگے کہ سلیمان ندوی دم بخود ہو گئے اور پھر کبھی اس مسئلے پر بات نہ ہوئی۔۔۔ یہ واقعات مولانا اصلاحی کی شخصیت کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں جس کا تعلق بیک وقت عزت نفس، خود اعتمادی اور طبیعت
کی شوخی سے ہے۔ اصلاحی صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلو ان کی سادگی اور قناعت ہے۔ انھوں نے دنیا کی کبھی طلب نہیں کی۔ جب دنیا دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے گئی تب بھی انھوں نے دنیا کو گھاس نہیں ڈالی۔ نہایت سادہ انداز میں زندگی گزاری۔ ضروریات کو محدود رکھا۔ جو مل گیا اس پر گزارہ کیا۔ رحمان پورہ لاہور میں جہاں وہ اس زمانے میں مقیم تھے، بارہا ان کے گھر جانے کا موقع ملا اور ہمیشہ ان کی سادہ زندگی پر رشک آیا۔ روایت ہے کہ جب شیخوپورہ میں اپنی اہلیہ کے زرعی فارم (رحمان آباد) منتقل ہو گئے، جہاں تدبر قرآن کی تحریر تسوید کا بیشتر کام ہوا۔ یہاں بجلی کی سہولت بھی نہ تھی لیکن مولانا اصلاحی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے اور اپنی دھن میں لگے رہے ۔
دنيا
امیر ہے
اے
میرے دام خیال میں بے خبر مقید دنیا نہیں ہوں میں
سادگی اور قناعت اپنی جگہ لیکن مولانا کی زندگی میں بلا کی شائستگی، نفاست اور سلیقہ تھا۔ لباس، غذا گفتگو تحریر، ہر چیز صاف ستھری۔۔۔ گویا زندگی ایک آرٹ ہے جس میں سادگی تو ہے لیکن سلیقہ اور تزئین کی کمی نہیں۔ روایت ہے کہ مولانا اپنے استعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی سخت موحد تھے اور اپنے ہی گھر میں ان کی ایک جداگانہ دنیا تھی جس میں کسی دوسرے کو دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی۔ گویا اس معاملے میں ان کا مزاج کچھ اکبر بادشاہ جیسا تھا، جس نے ہاتھی پر بیٹھنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ اس کا کنٹرول فیل بان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوان بادشاہ نے کہا تھا کہ جس سواری کی لگام میرے ہاتھ میں نہ ہو، میں اس پر سواری نہیں کرتا۔ مولانا بھی اپنی ایک جداگانہ مملکت رکھتے تھے اور اس میں زمام کار ان کے اپنے ہاتھوں میں رہتی تھی۔ جس طرح وہ عقل کی باگ کسی دوسرے کو سوچنے پر راضی نہ تھے اسی طرح نجی ر شخصی معاملات میں بھی شرکت گوارا نہیں کرتے تھے اور نہ کسی پر بوجھ بننے کو تیار تھے۔ مولانا اصلاحی کی زندگی میں عقل و ارادہ اور خودی اور عزت نفس کے باوجود دل اور دماغ کا بڑا حسین
اور
Reviews
There are no reviews yet.