ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جنوری ۲۰۱۴ء
۳۹
اشارات -۲
ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہا ہے ۔ یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوؤں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ بلاشبہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام وتفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان امور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصور جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولی ہے۔ سیہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہا ہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتاب America’s Deadliest Export: Democracy (اشاعت: وسط ۲۰۱۳ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت، شدت پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset) کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں ، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جو ہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ : “جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے” اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا ، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور ، وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پر موت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: What is the”
difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission.
پاکستان، افغانستان اور امریکی ایجنڈا
₨ 0
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جنوری ۲۰۱۴ء
۳۹
اشارات -۲
ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہا ہے ۔ یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوؤں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ بلاشبہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام وتفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان امور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصور جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولی ہے۔ سیہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہا ہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتاب America’s Deadliest Export: Democracy (اشاعت: وسط ۲۰۱۳ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت، شدت پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset) کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں ، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جو ہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ : “جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے” اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا ، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور ، وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پر موت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: What is the”
difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission.
Reviews
There are no reviews yet.