پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران ___ نکلنے کا راستہ

 0

عالمی ترجمان القرآن ، جنوری ۲۰۱۳ء
L
اشارات
ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی عدت کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کر سکے تو اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵ برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ در پیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک 11 بار میعاد پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ ۱۶ مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰ دن میں انتخاب لازمی ہیں ۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نا مناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہو جانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کر کے ۶۰ دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی
راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ آپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہو سکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا
جائے: لائحہ عمل
ا۔ اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔ اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔

SKU: 6849817b03b2c8619f33ccc8 Categories: , ,

عالمی ترجمان القرآن ، جنوری ۲۰۱۳ء
L
اشارات
ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی عدت کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کر سکے تو اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵ برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ در پیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک 11 بار میعاد پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ ۱۶ مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰ دن میں انتخاب لازمی ہیں ۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نا مناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہو جانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کر کے ۶۰ دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی
راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ آپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہو سکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا
جائے: لائحہ عمل
ا۔ اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔ اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران ___ نکلنے کا راستہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »