ترجمان القرآن، اگست ۴۱۰
اشارات
آبادی کے مافی سند نے امر کی اور نا تو افواج کی واپسی اور جنگ بند کرنے اور صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں گیلپ کے تین جائوں کی رو سے 90 فی صد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مخالف ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کا ۷۲ فی صد بر طانوی افواج کے افغانستان سے ایک سال کے اندر اندر انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور خود امریکا میں صدر اوباما کی افغان پالیسی کے خلاف راے دینے والوں کی تعدا داب ۵۰ فی صدت بڑھ گئی ہے۔ لندن کے اخبار گلوٹین کی ۲۱ جولائی ۲۰۱۰ ء کی اشاعت میں اس کے مضمون نگار سے اس پاکمن (Seumas Milne) نے لکھا ہے: افغانستان میں کوئی فریق بھی دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، البتہ اس عالی طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے میں 24 فی صد زیادہ ہو گئے اور شہری ہوات ۲۳ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ یہ جنگ اپنے بدلتے ہوئے مقاصد میں سے ہر ایک میں نا کام ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے، افیون کی پیدا وار ختم کرنے، جمہوریت کی ترویج اور خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے صورت حال حقیقت میں مزید خراب ہوگئی ہے، بلکہ اب تو امریکا اور ناٹو کی ساکھ تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ عرصے سے افغانستان کی پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا ایک واضح راستہ تھا، یعنی تمام نمایاں افغان طاقتوں بشمول طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غیر ملکی افواج کی واہی جس کی ضمانت خطے کی دیگر طاقتوں نے دی ہو۔ مسئلے کا یہ مل عرصے سے جنگ کے مخالفین پیش کر رہے ہیں، اب جنگ کے حامی بھی اس کے قائل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سر زمین حالات کتنے خراب ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ عراق میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کو تقویت دینے کا باعث ہے، یعنی امریکا کی اپنی مرضی بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی حدود اگر امریکی فوج کو جس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں، ایک خستہ حال فوج دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں شکست سے دو چار کر سکتی ہے تو یقینا اس کے مضمرات ایک نئے عالمی نظام کے لیے سنگین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے قریب ترین حلیف
پاکستان کی آزادی اور سلامتی امریکا اور بھارت کا خطر ناک کھیل
₨ 0
ترجمان القرآن، اگست ۴۱۰
اشارات
آبادی کے مافی سند نے امر کی اور نا تو افواج کی واپسی اور جنگ بند کرنے اور صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں گیلپ کے تین جائوں کی رو سے 90 فی صد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مخالف ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کا ۷۲ فی صد بر طانوی افواج کے افغانستان سے ایک سال کے اندر اندر انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور خود امریکا میں صدر اوباما کی افغان پالیسی کے خلاف راے دینے والوں کی تعدا داب ۵۰ فی صدت بڑھ گئی ہے۔ لندن کے اخبار گلوٹین کی ۲۱ جولائی ۲۰۱۰ ء کی اشاعت میں اس کے مضمون نگار سے اس پاکمن (Seumas Milne) نے لکھا ہے: افغانستان میں کوئی فریق بھی دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، البتہ اس عالی طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے میں 24 فی صد زیادہ ہو گئے اور شہری ہوات ۲۳ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ یہ جنگ اپنے بدلتے ہوئے مقاصد میں سے ہر ایک میں نا کام ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے، افیون کی پیدا وار ختم کرنے، جمہوریت کی ترویج اور خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے صورت حال حقیقت میں مزید خراب ہوگئی ہے، بلکہ اب تو امریکا اور ناٹو کی ساکھ تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ عرصے سے افغانستان کی پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا ایک واضح راستہ تھا، یعنی تمام نمایاں افغان طاقتوں بشمول طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غیر ملکی افواج کی واہی جس کی ضمانت خطے کی دیگر طاقتوں نے دی ہو۔ مسئلے کا یہ مل عرصے سے جنگ کے مخالفین پیش کر رہے ہیں، اب جنگ کے حامی بھی اس کے قائل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سر زمین حالات کتنے خراب ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ عراق میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کو تقویت دینے کا باعث ہے، یعنی امریکا کی اپنی مرضی بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی حدود اگر امریکی فوج کو جس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں، ایک خستہ حال فوج دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں شکست سے دو چار کر سکتی ہے تو یقینا اس کے مضمرات ایک نئے عالمی نظام کے لیے سنگین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے قریب ترین حلیف
Reviews
There are no reviews yet.