ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، دسمبر ۲۰۲۲ء
L
اشارات
انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب میں جمہوریت آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مزید مضبوط ہو گا جو مغرب اور اس کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے خدشات کے زیر اثر اس نے عرب ریاستوں کو مزید تقسیم کرنے اور یہاں نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کو مضبوط تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ کسنجر کے خیال میں یہ حکمت عملی اسرائیل کے دفاع میں بھی کام آ سکتی ہے۔ کردوں، عربوں، ایرانیوں، اور ترکوں کے درمیان نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کی حوصلہ افزائی اس حکمت عملی کا ایک پہلو تھی۔ یہی کھیل اب عراق، افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور عرب دنیا میں کھیلا جارہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے آئندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ان پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
علاقائی تناظر : سوم یہ کہ ہمارے خطے کی صورت حال ۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح عراق میں بدترین امریکی مداخلت اور بھارت کے ساتھ امریکا کی نئی صف بندی سے بھی ہم متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی ایک محکم اور کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جس کا اثر پاک چین تعلقات پر بڑا واضح ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر اپنی سابقہ ترقیاتی حکمت عملی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، چین اب عالمی خصوصاً ایشیائی اور افریقی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں جو فوری چیلنج در پیش ہے وہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے سے پہلو بچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ، لیکن پھر بھی حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی غیر متوازن راستہ ہے۔ یہی معامله ایران، اسرائیل اور امریکا کے تعلقات کا ہے، جن میں کوئی بھی خرابی مشرق وسطی کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔ ان حالات سے آنکھیں چرانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر امریکا اب چین کو اپنے مد مقابل سے بھی زیادہ تصور کر رہا ہے، اور ایک نئے اقتدار کی جنگ کی طرف جارہا ہے، جس میں امریکا، چین کی قوت کو للکارنے کی راہ پر چلے گا۔
ملکی حالات: چہارم یہ کہ ہمارے ملکی حالات ہیں۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو گذشتہ ۲۲ برس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دورانیے کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، ۱۹۹۹ ء
پاکستان کے سیاسی، آئینی اور انتظامی مسائل
₨ 0
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، دسمبر ۲۰۲۲ء
L
اشارات
انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب میں جمہوریت آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مزید مضبوط ہو گا جو مغرب اور اس کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے خدشات کے زیر اثر اس نے عرب ریاستوں کو مزید تقسیم کرنے اور یہاں نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کو مضبوط تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ کسنجر کے خیال میں یہ حکمت عملی اسرائیل کے دفاع میں بھی کام آ سکتی ہے۔ کردوں، عربوں، ایرانیوں، اور ترکوں کے درمیان نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کی حوصلہ افزائی اس حکمت عملی کا ایک پہلو تھی۔ یہی کھیل اب عراق، افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور عرب دنیا میں کھیلا جارہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے آئندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ان پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
علاقائی تناظر : سوم یہ کہ ہمارے خطے کی صورت حال ۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح عراق میں بدترین امریکی مداخلت اور بھارت کے ساتھ امریکا کی نئی صف بندی سے بھی ہم متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی ایک محکم اور کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جس کا اثر پاک چین تعلقات پر بڑا واضح ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر اپنی سابقہ ترقیاتی حکمت عملی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، چین اب عالمی خصوصاً ایشیائی اور افریقی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں جو فوری چیلنج در پیش ہے وہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے سے پہلو بچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ، لیکن پھر بھی حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی غیر متوازن راستہ ہے۔ یہی معامله ایران، اسرائیل اور امریکا کے تعلقات کا ہے، جن میں کوئی بھی خرابی مشرق وسطی کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔ ان حالات سے آنکھیں چرانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر امریکا اب چین کو اپنے مد مقابل سے بھی زیادہ تصور کر رہا ہے، اور ایک نئے اقتدار کی جنگ کی طرف جارہا ہے، جس میں امریکا، چین کی قوت کو للکارنے کی راہ پر چلے گا۔
ملکی حالات: چہارم یہ کہ ہمارے ملکی حالات ہیں۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو گذشتہ ۲۲ برس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دورانیے کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، ۱۹۹۹ ء
Reviews
There are no reviews yet.