عالمی ترجمان القرآن ،فروری ۲۰۱۲ء
L
اشارات
بلوچستان کی تشویش ناک صورت حال
بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے ۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کو قریبا تین سال ہو گئے ہیں مگر اس کا آغاز ہی نہیں ہو سکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ہم لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستا ہے۔ امریکا کی بڑھتی ھوئی گرفت
امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کر چکی تھی ، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یا ان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کر لی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنا دیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میں گذشتہ تین برسوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کر دیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کر رہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کر رہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جارہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔
پاکستان کے مسائل اور ان کا حل
₨ 0
عالمی ترجمان القرآن ،فروری ۲۰۱۲ء
L
اشارات
بلوچستان کی تشویش ناک صورت حال
بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے ۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کو قریبا تین سال ہو گئے ہیں مگر اس کا آغاز ہی نہیں ہو سکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ہم لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستا ہے۔ امریکا کی بڑھتی ھوئی گرفت
امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کر چکی تھی ، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یا ان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کر لی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنا دیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میں گذشتہ تین برسوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کر دیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کر رہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کر رہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جارہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔
Reviews
There are no reviews yet.