ہم اس ملک میں کیا معاشی تبدیلیاں لائیں گے

ہم اس ملک میں کیا معاشی تبدیلیاں لائیں گے ؟
پروفیسر خورشید احمد نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
حمد و ثناء کے بعد ! محترم صد ر جلسه جناب پروفیسر غفور احمد صاحب، عالمی اسلامی تحریکات کے قائدین کرام، میرے دینی و تحریکی بھائیو اور بہنو، جوانو اور ساتھیو ! مجھے اس وقت آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم اس ملک میں کیا معاشی تبدیلیاں لائیں گے اگر مجھے سے کہا جائے کہ اس کا جواب ایک جملہ میں دو، تو میں یہ کہوں گا کہ ہم جاگیر داری، سرمایہ داری، اشتراکیت اور دوسرے تمام جاہلانہ نظاموں کے باغی ہیں۔ ہمارا مقصد اور ہمارا ہدف شریعت محمدی کی بنیاد پر ایک مکمل طور پر نیا معاشی نظام قائم کرنا ہے۔ ہم کسی جزوی تبدیلی، کسی سمجھوتے یا کسی نمائشی تبدیلی کے لیے کام نہیں کر رہے۔ ہم اس ملک میں بنیادی، استقلابی، معاشی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور ہم اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس ملک کی نجات اس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا راستہ بھی صرف ایک ہے۔
حاضرین کرام ! آئیے سب سے پہلے بات کو سمجھیں کہ اسلام معاشی مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ میری نگاہ میں سب سے اہم اور سب سے کلیدی مسئلہ یہی ہے۔ آج تک انسان نے معاش کے مسئلہ کو محض معاشی ذرائع سے دولت کی پیداوار کو بڑھانے کے نام پر حل کرنے کی کوشش کی اور یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اسلام نے اس کے مقابلے میں ایک بالکل دوسرا ہی رویہ پیش کیا۔ اسلام کا انقلابی
۱۳۹
پیغام یہ ہے کہ معیشت کے مسائل بھی اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب سب سے پہلے ایمان درست ہو۔ اللہ اور اس کے رسول پر صحیح عقیدہ ہو۔ زندگی گزارنے کا نظریہ درست ہو۔ آخرت پر یقین ہو۔ دنیا کی حقیقت کو ہم جان لیں کہ اخلاق اور معیشت ، ایمان اور معیشت ان دونوں کو ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ یہ وہ انتقلابی نظریہ ہے جسے اسلام نے پیش کیا۔ جسے خود مسلمان بھولے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ہمارے نبی نے ہمیں یہ دعا سکھائی ۔
ترجمہ: اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے فقر سے“۔
کیا قرآن میں ہمیں یہ بات بتائی نہیں گئی کہ ایمان آخرت پر یقین اور غریبوں کی مدد مجبور وں کی مدد ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ آپ نماز میں بار بار یہ سورت پڑھتے ہیں کہ أرأيت الذي يكذب بالدين فذالك الذي يدع الميتنيم ولا يحض على طعام المسکین۔ ترجمہ : کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے اور وہ وہی تو ہے جو
یتیم کو دھکے دیتا ہے اور جو مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا“۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو معاشی انصاف اختیار کرنے اور تولنے میں صداقت کی دعوت دی تو انہوں نے پوچھا کہ اے شعیب! یہ تمہارا ایمان، یہ تمہارا اللہ کیسا ہے جو ہمیں خود اپنی ملک میں اپنی دولت میں تصرف سے روکتا ہے۔
اسلام نے جو تعلیمات ہمیں دی ہیں، اس کا سب سے بنیادی پہلو یہ ہے کہ :
ترجمہ : اللہ نے جو کچھ تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے طیبات میں سے استعمال کرو۔ اس میں
سرکشی نہ کرو“۔ معاشی مسائل میں سرکشی، اللہ سے بغاوت یہ ہے کہ حرام سے دولت کمائی جائے ، اسراف کیا جائے ، دولت غلط راستوں پر استعمال ہو، حق دار کو حق نہ ملے، حقوق اور واجبات سے صرف منظر کیا جائے ۔ اسلام، ایمان اخلاق اور معیشت ان دونوں کو ایک ہی حقیقت کے دو پہلو قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جس چیز کی ضمانت اہل مکہ کو دی، وہ یہ ہے :
ترجمہ: ”جو انہیں بھوک اور خوف ان دونوں سے نجات دیتا ہے“۔ اس سلسلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر معیشت کا رشتہ دین سے، ایمان سے اور اخلاق سے کاٹ دیا جائے تو اس کے نتیجہ میں دولت پرستی پیدا ہوتی ہے، ظلم پیدا ہوتا ہے، استحصال پیدا ہوتا ہے اور حقوق سے روگردانی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے
جو اصول ہمیں بتایا یہ ہے ”لا تظلون ولات
تظلمون
،،
ترجمہ نہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا“۔
میں علامہ اقبال کے اس مشہور شعر میں ذراسا تصرف کر کے یہ کہوں گا:
جدا ہو دیں معیشت سے تو بن جاتی ہے قارونی“
جس طرح چنگیزی ایک فتنہ ہے اسی طرح قارونی بھی ایک فتنہ ہے۔ اسلام کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ معیشت کی اصلاح، ایمان اور اخلاق اور کردار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہو۔ دوسری بنیادی چیز یہ ہے جو اس کا لازمی تقاضا ہے وہ یہ کہ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کو حلال اور حرام کے تابع کیا ہے۔ یہ حلال و حرام انسانوں نے طے نہیں کئے بلکہ اللہ اور اس کے رسول نے متعین کر دیا ہے کہ کون سے راستے حرام ہیں اور کون سے راستے حلال ۔۔۔ حلال کی کوشش اور حرام سے اجتناب جب تک کہ یہ معیشت کی بنیاد نہ ہو ، انسان کے معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف اسلام نے معیشت کا جو مقصد دیا ہے، معاشی جدوجہد کا جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ انصاف کا قیام ہے۔ محض دولت کی پیداوار نہیں، محض معاشی ترقی نہیں، محض بر تری قوت نہیں، بلکہ اس کا ہدف انصاف ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے نیچے وہ سارے وسائل اور خوبیاں پیدا کر دی ہیں جنہیں استعمال کر کے تمام انسانوں کی، تمام جینے والوں کی حتٰی کہ جانوروں کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ تمام انسانوں کی حقیقی ضرورتیں پوری ہوں۔ تمام انسانوں کو اللہ کے فراہم کردہ ان مسائل کے اوپر مساوی حق حاصل ہو۔ اسلام معاشی جد وجہد کو اخلاقی فضائل کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ زکوۃ کو عبادت قرار دینے کے معنی یہی ہیں۔ کہ دولت اگر صحیح طریقے پر خرچ کی جائے تو یہ بھی ایک عبادت ہے اس کو صحیح طرح کمانا اس کو حق دار تک پہنچانا اور جس جس پر اس کا حق ہے اسے اس میں شریک کرنا یہ بھی اسی طرح عبادت ہے جس طرح نماز، روزہ اور حج۔ اس کے معنیٰ یہ ہونے کہ اسلام کی نگاہ میں سب سے پہلی ضرورت انسانوں کی بنیادی ضروریات کا پورا کیا جاتا ہے۔ انہیں آزادی، مواقع اور شعور فراہم کرنا ہے۔ ان کے لیے حالات کو اسی طرح ساز گار بنانا ہے کہ وہ عزت کے ساتھ حلال رزق حاصل کر سکیں۔ اس حلال رزق کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل قرار دیا ہے۔ ترقی کا پیمانہ اسلام کی نگاہ میں محض دولت کی فراوانی نہیں، بلکہ انصاف کا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں تمام انسان انسانوں کی حیثیت سے باعزت زندگی گزار سکیں۔ اور اس میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں۔ اسلام نے عورت کو بھی ملکیت کا اور معاشی جدوجہد کا اسی طرح حق دار بنایا ہے جس طرح
مردوں کو بنایا ہے اور منصفانہ تقسیم کی ضمانت دی ہے۔
میں یہاں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اہل علم اور فقہاء نے بڑے صاف الفاظ میں اس بات کو بتایا ہے کہ انصاف کا قیام ہماری اصل منزل اور ہمارا اصل ہدف ہے۔ حضرت عمر فاروقی نے حضرت اشعری کو ایک خط لکھا جس میں آپ نے لکھا ” یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر حکمران اور والی وہ ہے جس کی رعایا خوشحال اور امن کے ساتھ رہے اور سب سے بد بخت حکمران اور والی وہ ہے جس کی رعایا بد حال اور پریشان ہو۔ تم کو کجی سے بچنا چاہیے تاکہ تمہارے کارندے بھی ظلم اور کبھی نہ کریں۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اس بات پر صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھو کا، تنگا یا ضرورت زندگی سے محروم ہے تو مالداروں کے فاضل مال سے ان کی کفالت کرنا فرض
ہے۔
مشہور اہل علم ابن حزم لکھتے ہیں کہ ہر ایک بستی کے ارباب دولت مند کا فرض ہے کہ وہ فقراء اور غرباء کی معاشی زندگی کے کفیل ہوں اور اگر بیت المال کی آمدنی ان غرباء کی معاشی کفالت کے لیے کافی نہ ہو تو پھر سلطان امراء اور ارباب دولت کو ان کی کفالت کے لیے مجبور کر سکتا ہے اور ان کی زندگی کے اسباب کے لیے کم از کم بھی یہ انتظام ضروری ہے کہ ان کی ضروری حاجات پوری ہوں۔ یعنی روٹی مہیا ہو، پہننے کے لیے موسم کے لحاظ سے گرم اور سرد لباس فراہم ہو، رہنے کے لیے ایسا مکان ہو جو انھیں بارش، دھو ایسے سیلاب سے محفوظ رکھ سکے۔
رفتناء محترم! اسلام نے ہمارے سامنے معاشی زندگی کا جو ہدف مقرر کیا ہے وہ انصاف کا قیام ہے اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان امت کے پاس اتنی معاشی، فنی اور عسکری قوت ہو کہ وہ دنیا کے سامنے حق کے گواہ شہداء علی الناس کی ذمہ داری ادا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے امت کو جو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس میں ساری دنیا کے سامنے اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی صلاحیت ہو۔ اس صلاحیت کے لیے جہاں کمال، قول و عمل کی اعلیٰ مثال ضروری ہے، وہاں اس کے لیے معاشی وسائل اور فنی مہارت کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم انت غیروں کی محتاج نہ ہو۔ اگر غیر امت کے ہم محتاج ہوں گے تو کبھی بھی ہم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکیں گے۔ یہ وہ مقاصد ہیں جو اسلام نے معاشنی زندگی کے لیے ہمیں دیے ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کے مطابق اسلام کا معاشی نظام مرتب ہوتا ہے۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ پاکستان میں گزشتہ بیالیس سالوں میں
کیا ہوا۔
آج تک یہاں سات معاشی منصوبے پیش کیے گئے ان ۴۲ سالوں میں ہم نے سرمایہ داری اور سرمایہ پرستی کا بھی اور اشتراکیت کا بھی تجربہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہم نے اسلام کے نام پر بھی کچھ چیزیں متعارف کرنے کی کوشش کی۔ اگر ایمانداری اور بے لاگ طرز پر اس پورے دور کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان ۴۲ سالوں میں ہم قوم کے معاشی مسائل حل اور معاشی دکھوں کا مداوا نہیں کر سکے۔ بحیثیت مجموعی ایک معاشی بحران سے دوسرے معاشی بحران، ایک مصیبت سے دوسری مصیبت کی طرف بڑھتے رہے۔ میں حالات کا تجزیہ کر کے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور اس میں میری نگاہ میں سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ ہم نے معاشی ترقی کو اصل مقصود بنایا۔ اور یہ معاشی ترقی حرام اور حلال سے ناآشنا تھی۔ اس کے نتیجے کے طور پر ملک میں دولت پرستی، ظلم و استحصال، وسائل کا ارتکاز ، بلا محنت امیر بن جانے کا جذبہ، غلط طریقوں سے اثرات کو بڑھانا، پر مٹ، روٹ پرمٹ، رشوت، کرپشن۔ یہ وہ تمام راستے ہیں، جنہیں اختیار کر کے ہم نے قوم کو ایسی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے کہ وہ اس توازن اور منقطۂ آغاز سے بہٹ گئے۔ اس لیے میری نگاہ میں سب سے پہلی خرابی آج تک ہماری منصوبہ بندی اور پالیسی میں یہ رہی ہے کہ ہم نے انصاف کو مقصد نہیں بنایا۔ ہم نے ضروریات کو پورا کرنے کا اپنا ہدف نہیں بنایا۔ بلکہ ہم نے ایک مجہول معاشی ترقی کو سامنے رکھ کر دولت پرستی، غلط طریقوں کے ارتکاز اور ظلم اور زیادتی کے راستے پر خود کو ڈال
دیا۔
دوسری چیز، یہ ہماری غلط ترجیحات ہیں ، جن میں میری نگاہ میں سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے زراعت کو نظر انداز کیا حالانکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ ہماری آبادی کا ۷۰ فیصد حصہ کے روز گار کا انحصار اس کی زندگی کا انحصار آج بھی زراعت کے اوپر ہے۔ ہماری تین چوتھائی آبادی دیہات میں رہتی ہے لیکن آج تک کی تمام معاشی منصوبہ بندی میں زراعت کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس کے حقوق ادا نہیں ہوئے، اس کی ترقی کے لیے کوئی جامع منصفانہ اور Scientific پروگرام نہیں بنایا گیا۔ دوسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ معاشی منصوبہ میں کن چیزوں کو پیدا کرنا اور فراوانی کن چیزوں کی ہونی چاہیے۔ اس کے بارے میں ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ ہمارے معاشرے کی ضروریات کیا ہیں۔ ہم نے اس میں دوسروں کی نقالی کی۔ ہیں ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ ہم ہمیشہ سے کچھ مشروبات پیتے رہے ہیں۔ دودھ ہے، کسی ہے، شربت ہے، ان تمام میں غذائیت بھی اور لذت بھی تھی لیکن ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں مغربی ممالک میں تیار کیے جانے والے کو کا کولا، پیپسی کولا . سیون اپ وغیرہ وغیرہ کو زیادہ اہمیت دی۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج یہ غریب ملک جہاں کی تعلیم،
آبادی کا۴ فیصد کم سے کم اپنی ضروریات نہیں پوری کر سکتا۔ ہم ان مغربی نوعیت کے مشروبات پر ۴۴۰ کروڑ روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کیا چیز دی۔ غذائیت ملی نہ طاقت ملی۔ بلکہ مقامی چیزیں تباہ ہو گئیں۔ ہم نے حقیقی ضروریات کو متعین کر کے ان ضروریات کو پورا کرنے والی اشیاء کی فراوانی کا اہتمام نہیں کیا۔ بلکہ اس کے مقابلے میں لوگوں میں مصنوعی طلب پیدا کی۔ سماجی خدمات، جس میں سب سے اہم سڑکیں، صاف پانی کی فراہمی، بجلی کی فراہمی، ٹرانسپورٹ کی سہولت جیسی چیزیں ہمارے ہاں نظر انداز ہوئیں۔ آج عالم یہ ہے کہ ان میں سے ہر سہولت دم توڑ رہی ہے۔ جو حکومت آتی ہے ہر دوسرے تیسرے مہینے کے بعد قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشی قتل اسی طرح ہے۔ معاشی اصطلاح میں اس کو Economic Enficture کہتے ہیں۔ جس کے بغیر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے جس میں افراد صحیح طور پر معاشی کوشش کر سکیں۔ ہم نے اس کے مقابلے میں مسرفانہ معاشرہ بنایا۔ ٹی وی کے اشتہار دیکھیے۔ اخبارات کے اشتہارات دیکھیے جو پروگرام ہمارے ریڈیو، ٹی وی میں پیش کیے جاتے ہیں ان کو دیکھیے۔ ان کا کوئی تعلق ہمارے معاشرے سے اس کی سطح زندگی سے، اس کے حالات سے نہیں اور ان کے ذریعے معاشرے کے اندر ایک ایسی مصنوعی طلب پیدا کی جا رہی ہے۔ ایک ایسی پیاس پیدا کی جا رہی ہے جسے کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا اور جو صرف سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری پر جاکر کے منتج ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی ناخواندہ ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی مادری زبان یا اردو میں بھی کسی چیز کو نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ تعلیم یافتہ کو جاننا چاہیں تو اس ملک میں وہ افراد جنہوں نے کسی نوعیت کی کوئی تعلیم حاصل کی ہے وہ آبادی کا صرف ۵ فیصد ہیں۔ ۹۵ فیصد تعلیم سے محروم ہیں۔ اس ملک میں صرف ۳۵ فیصد افراد تک بجلی کی سہولت پہنچی۔ ۶۵ فیصد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ صرف شہروں میں ۸۰ فیصد اور دیہات میں ۴۵ فیصد افراد ایسے ہیں کہ جن کو صاف پانی میسر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آدھی آبادی ایسی ہے جسے پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ کراچی جیسا شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ملک کی دولت کا ۵۰ فیصد تقریباً وہاں ہے۔ آج وہ شہر تباہ ہے وہاں کی ۴۰ فیصد آبادی کچی بستیوں میں رہ رہی ہے۔ ان کے پاس اپنے سر چھپانے کے لیے پختہ مکان نہیں ہے۔ بارش سے بچنے اور سیوریج کی کوئی سہولت ان کو حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی شرح اموات ۸۰ فیصد ہے جو دنیاکے پسماندہ ترین ممالک کی صف میں ہم کو لے جاتی ہے۔ مکان کی سہولت کی شرح کیا ہے؟ ۱۹۸۰ ء کے تازہ ترین ہاؤسنگ شماریات سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ۲۰ سال پہلے جو سہولت مکانوں کی حاصل تھی۔ اس میں ۳۰ فیصد کمی واقع ہوئی۔ یعنی
پہلے ایک کمرہ میں اگر ۲۰۷ افراد رہتے تھے تو آج ایک کمرے میں ۳۰۵ افراد رہ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا حال یہ ہے کہ شہروں میں جہاں آبادی کا صرف ۳۰ فیصد رہتا ہے کل ملک کے ڈاکٹروں کا ۸۰ فیصد پایا جاتا ہے اور دیہات جہاں ہماری آبادی کا ۷۰ فیصد رہتا ہے ان میں ہمارے ڈاکٹروں کا صرف ۲۲ فیصد
ہے۔
دولت کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو حالات اور بھی زیادہ پریشان کن نظر آتے ہیں۔ زمین کو لیجئے، ملک میں ایگریکلچر لینڈ کے جو سروے ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کے یعنی فارمز کے ۱۰ فیصد چھوٹے فارم (کھیت) جن کے پاس ہیں، ان کی تعداد بھی بڑھی ہے اور ان کا ملہ بھی کم ہوا ہے اور ان کے مقابلے میں جو دس فیصد بڑے زمیندار ہیں، جن کے پاس بڑے فارمز ہیں، ان کی تعداد کم ہوئی ہے، لیکن ان کے پاس زمین کا حصہ بڑھ گیا ہے۔ اسی طریقہ سے ہاؤس ڈور سیروے جو ہوئے ہیں، اب سب سے یہ چیز معلوم ہوتی ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ اور غیر مساوی نسیم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ بنک سے قرضے لینے والوں میں سے جو حضرات چھوٹے قرضے لیتے ہیں، یعنی ۲۵ ہزار روپے یا اس سے کم، ان کی تعداد کل قرضے لینے والوں کی ۷۷ فیصد ہے، لیکن جو قرض ان کو مل رہا ہے وہ کل قرض کا فی صد ہے اور اس کے مقابلے میں وہ افراد جو کروڑوں کے قرضے لے رہے ہیں ان کی تعداد صرف ۹۲۱ ہے۔ جو کل قرض لینے والی آبادی کا ا ، . بنتے ہیں۔ لیکن تمام قرضوں کا ۳۵ فی صد ان کو مل رہا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک اندرونی اور بیرونی دونوں لحاظ سے قرضوں کے بار تلے دبا جا رہا ہے۔ اس ملک میں کبھی بھی اند رونی وسائل قرضے کی بنیاد پر اس حد تک نہیں پہنچے جو آج پہنچے ہیں صورتِ حال یہ ہے کہ ارب روپے کا داخلی قرضہ ہے اور ۱۹ بلین یعنی ۳۸۰ ارب روپے کا بیرونی قرضہ ہے۔ آج ہم میں سے ہر شخص بوڑھا، جوان، مرد، عورت اور بچہ ساڑھے سات ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس غلط ترجیح نے معیشت کو پہنچایا ہے۔ تیسری بنیادی خرابی حکومت کا کردار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت کو جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتی۔ یعنی امن و امان کا قیام، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور انصاف۔ وہ فراہم نہیں کرتی اور جو کام اسے نہیں کرنا چاہیے اسے اس نے اپنے اوپر اوڑھ رکھا ہے۔ وہ ایک سرمایہ دار، ایک صنعت کار، ایک ٹیکنالوجسٹ اور ایک کاروباری کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ اس وقت ۳۵۰ پبلک کارپوریشن ان میں موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں۔ ان پر بڑی بڑی رقوم خرچ ہو رہی ہیں۔ ان کو چلانے والے افراد میں کوئی پروفیشنل صلاحیت کا حامل
نہیں ہے ، بیوروکریٹ یا سیاست دانوں کے عزیز و اقارب ہیں۔ رشوت اور کرپشن اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور تازہ ترین سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ملک کی معیشت میں تقریباً ۴۰ سے ۵۰ فی صدی جو زر زیر استعمال ہے وہ کالا دھن ہے۔ وہ ناجائز یا نامعلوم معیشت سے باہر ہے۔ ٹیکس کا نظام نہایت غیر منصفانہ ہے۔ ٹیکس کا نظام ایک شریف انسان کو نیکی اور حلال ذرائع سے کام کرنے سے روکتا ہے اور مجبور کرتا ہے کہ وہ غلط راستہ اختیار کرے۔ انکم ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی کو جو شکل دی گئی ہے، حتی کہ امپورٹ ڈیوٹی نے بھی صرف چھ اشیاء کے اوپر سارا بوجھ بڑھایا ہے۔ تقریباً ۸۰ فیصدی کسٹم ڈیوٹی ہے ان چھ اشیاء کیلئے۔ بیرونی ممالک کے اوپر انحصار آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہماری معاشی قسمت کا فیصلہ اسلام آباد پشاور، کراچی، لاہور یا کوئٹہ میں نہیں بلکہ واشنگٹن اور نیو یارک میں ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک اپنی شرائط مقرر کرتے ہیں اور ہم مجبور ہیں کہ ہم ان کی معاشی غلامی میں زندگی گزاریں معاشی بگاڑ اور خرابی کے یہ پانچ بڑے بڑے اسباب ہیں۔
ہم نے سرمایہ داری کا تجربہ کیا اور وہ ناکام رہا اور سرمایہ دارانہ طریق ترقی کو اختیار کر کے گزشتہ ۴۰ سالوں میں دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہے جس نے حقیقی معاشی ترقی کی ہو۔ دنیا کے ۱۳۰ ممالک معاشی غربت، افلاس اور محتاجگی میں مبتلا ہیں۔ ہم نے اشتراکی تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا اور آج خود اشتراکی ممالک بر ملا اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ اشتراکیت ناکام ہو گئی۔ روس اور چین اور شرقی یورپ میں جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں وہ ساری کی ساری بنیادی اشتراکی فلسفے اور اس کے پروگرام کے خلاف ہیں بلکہ تاریخ میں ایک واقعہ یہ ہوا ہے کہ پولینڈ میں چالیس سال کے بعد پہلا غیر کیمونسٹ پرائم منسٹر وجود میں آیا ہے۔ آج اشتراکیت، اس کا معاشی پروگرام، اس کا سیاسی پروگرام ناکام ہو چکا ہے۔ ان حالات میں میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام اور صرف اسلام کے پاس ہی ایک ایسا انقلابی معاشی پروگرام ہے، جس کے ذریعے انسان کا معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور منصفانہ معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان اسی انقلابی پروگرام کی داعی ہے۔ اس انقلابی پروگرام کا سب سے پہلا حصہ یہ ہے کہ بلاشبہ یہ ایک مربوط سائنٹیفک معاشی پروگرام ہے، لیکن یہ انسان کی معاشی زندگی کو اس کی باقی زندگی سے نہیں کائنا، یہ انسان کی اصلاح کرتا ہے۔ یہ اس کے ایمان کی اصلاح کرتا ہے۔ یہ اس کے دل کی اصلاح کرتا ہے، یہ اس میں خدا کا خوف پیدا کرتا ہے، یہ ملکیت کا خاص تصور دیتا ہے کہ ملکیت ایک امانت ہے جو وسائل مجھے حاصل ہیں، یہ ایک امانت ہیں۔ انہیں دینے والا خالق
ہے، مجھے اس کی جواہد ہی کرنی ہے۔
“قرآن کہتا ہے جو کچھ تمہیں دیا گیا اس میں تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔“ یہ تمہاری آزمائش ہے جب تک انسان میں یہ ذہن نہ پیدا ہو، یہ رسائی پیدا نہ ہو، دولت اس کے اوپر غالب رہتی ہے، لیکن جب انسان اللہ کا بن جاتا ہے، جب دولت کو امانت سمجھتا ہے، جب وہ حلال و حرام کی پابندی کا
عہد کرتا ہے اور جب اخلاق اور قانون دونوں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ جس میں حلال پھلے پھولے اور حرام نیست و نابود ہو، تب انسانوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ تب وہ انسان پیدا ہوتا ہے جو اپنے دکھ اور دوسرے کے دکھ برابر سمجھتا ہے، جو اپنے پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھوک کو بھی دیکھتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرتا ہے کہ ”اپنے لیے جو کچھ تم نے پکایا ہے، اس میں سے اپنے ہمسائے کو کچھ دے دو۔ چاہے تمہیں سالن میں تھوڑا سا پانی ڈالنا پڑ جائے۔ اور اگر کوئی ایسی مجبوری ہے کہ تم اس کو نہیں دے سکتے تو پھر اگر تم نے پھل کھانے ہیں تو چھلکے دروازے کے باہر نہ ڈالو تاکہ دوسرے کو یہ احساس محرومی نہ ہو کہ اس نے پھل کھایا اور میں پھل نہیں کھا سکا۔ “
یہ وہ انقلابی تبدیلی ہے جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم اس ملک کی معاشی ترقیاتی حکمت عملی کو یکسر بدل دیں گے۔ قومی دولت میں اضافے کا ہم نے یہ جو بت بنا دیا ہے، ہم اسے توڑ دینا چاہتے ہیں۔ بی این پی کی پوجا ہمارے معاشی بگاڑ کا بہت بڑا سبب ہے۔ ہم اس کی جگہ یہ چاہتے ہیں کہ تمام انسانوں کی حقیقی ضروریات پوری ہوں، ہم میں ہر شخص کا یہ حق ہے کہ ہر اسے پیٹ بھرنے کیلیے روٹی ملے، بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا ملے، سر ڈھانپنے کیلیے مکان ملے، اسے تعلیم کی سہولت حاصل ہو، علاج کی سہولت حاصل ہو، جو غریب ہے، اسے شادی کے مواقع ملیں، خاندان قائم کرنے کی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جسے اسلام نے بنیادی ضرورتیں قرار دیا ہے اور انکی پیداوار اور انکی فراہمی، انہیں آسان بنانا یہ ہماری اصل ترجیح ہوگی۔ ہم حرام کے تمام ذرائع کو اخلاق اور قانون دونوں کے ذریعے بند کریں گے اور حرام ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت قومی اعتبار سے نہیں بچے گی۔ جن کا حق چھینا گیا ہے، وہ حق حقدار کو دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک میں بنیادی معاشی ترقی ہو، جس کے معنی ان سروسز کی فراہمی ہے جن کے بغیر بڑے پیمانے کی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ٹرانسپورٹ کا نظام، تعلیم کا نظام، بجلی کی فراہمی یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کے بغیر کوئی بھی معیشت ترقی نہیں کر سکتی ہے۔ انہیں پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہم زراعت کو اولیت دیں گے اور زراعت کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہو گی کہ چھوٹی صنعتوں کو جو زیادہ روزگار پیدا کرتی ہیں، انہیں ترقی دی جائے۔ ہم اپنے سامنے یہ اصول رکھیں گے کہ ان صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا، جو ملکی وسائل کو استعمال کریں جو عام انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا کام انجام دے سکیں۔ جن میں انرجی کا استعمال کم سے کم ” ہو، جو زیادہ سے زیادہ روز گار پیدا کرنے والی ہوں۔ یہ بالکل ایک نئی معاشی حکمت عملی ہے جو ہم دینا
چاہتے ہیں۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ حکومت کے دائرہ کار کو محدود کریں گے۔ آج کی ہماری حکومت جو معاشی رول ادا کر رہی ہے نہ وہ اس کی اہل ہے اور نہ اسے کوئی تجربہ ہے۔ ہم اس کے اس رول کو تبدیل کر دیں گے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کے اصول شراکت، اصول مضاربت کو عمل میں لائیں گے۔ بنکنگ کو سود سے پاک کر کے شراکت اور مضاربت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں گے اور سرمایہ کاری کیلیے ایسے اصول و ضوابط مقرر کریں گے جس کے نتیجے کے طور پر ہر فرد خاص طور سے کم وسائل والے افراد معاشی طور پر آزاد ہو سکیں۔ اپنے کاروبار کر سکیں۔ ہم ٹیکس کے نظام کو یکسر بدل دیں گے۔ انکم ٹیکس کے موجودہ ظالمانہ نظام کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ ہم ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جو کرپشن سے پاک ہو، جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہو سکیں اور جن کا بار قرآن کے اصول واحد کی بنیاد پر اُن پر پڑے جو اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہوں۔ ہم اس بات کی کوشش بھی کریں گے کہ ملک میں پروفیشنلز کو آگے بڑھائیں۔ آج ہماری صنعت حقیقی فنی مہارت سے محروم ہے۔ پبلک کارپوریشن کو پروفیشنل انداز میں چلائیں گے۔ کاروباری انداز میں چلائیں گے، یا اسے ہم نجی ملکیت میں دیں گے۔ پھر ہم اجتماعی کفالت کا سوشل سیکورٹی کا ایک موثر نظام قائم کریں گے جس کے نتیجے میں ایک طرف مزدور کو وہ مزدوری ملے گی جس سے وہ اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر سکے۔ جماعت کے منشور میں ہم نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہم کم سے کم مزدوری کم سے کم اجرت ۲۰۰۰ روپے ماہانہ اور ملک میں افراطِ زر کی مناسبت سے اس میں ایڈ جسٹمنٹ اور پنشن کم سے کم ۵۰۰ روپے ماہانہ رکھیں گے۔ ہمارے اجتماعی نظام کفالت کی بنیاد زکوۃ پر ہوگی۔ قانون وراثت پر ہوگی، اوقاف پر ہوگی، کمیشن پر ہوگی۔ ہم قرضِ حسنہ کا نظام بنائیں گے۔ بیواؤں، یتامیٰ، اپاہجوں کیلیے ہم ایسے ادارے قائم کریں گے جو اُن کی دیکھ بھال کر سکیں، جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکیں، کسانوں اور باریوں کی فلاح کیلیے ہم ادارے قائم کریں گے۔ اس طرح ہم ملک سے غیر فطری دولت کی غیر منصفانہ تقسیم دولت کو ختم کر دیں گے اور اس کے ساتھ
ساتھ ہم یہ بھی کوشش کریں گے کہ سارے معاشی اختیارات مرکز کے ہاتھوں میں نہ ہوں، بلکہ صوبے اضلاع اور علاقوں میں تقسیم ہوں۔ معیشت اس طرح فروغ پائے کہ محض چند جزیرے خوشحالی کے نہ ہوں، بلکہ ملک کے طول و عرض میں فراوانی ہو۔ معاشی جدوجہد کے مواقع پھیل جائیں۔ پھر قیمتوں کا استحکام ہمارے پروگرام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہماری کوشش ہو گی جس طرح افراط زر اس ملک میں جمع ہوا ہے اور جس طرح عام انسان کا زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، اس کو قابو
میں لائیں۔
آخری چیز یہ ہے کہ ہم انشاء اللہ بیرونی قرضوں سے ملک کو نجات دلانے کی کوشش کریں گے۔ ہم ملک کے اندرونی وسائل اور وہ پاکستانی جو بیرون ملک کام کر رہے ہیں اور جن کے پاس بڑے وسائل موجود ہیں اور پاکستانیوں کے وسائل اور امت مسلمہ کے وسائل کے استعمال سے معاشی ترقی کا راستہ اختیار کریں گے اور اس طرح ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نجات دلائیں گے۔
دوستو اور ساتھیو ! ہم نے اس ملک میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کا تجربہ ۴۰ سال تک کیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ہمارے معاشی مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔ میں دعوے کرنے کا عادی نہیں ہوں لیکن معاشیات کے ایک طالبعلم اور اسلام کے ادنی خادم کی حیثیت سے آپ سے یہ بات کہتا ہوں کہ جس معاشی حکمت عملی کو جماعت اسلامی نے منشور میں پیش کیا ہے اور جس کا خلاصہ میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے، اسلام کی دی ہوئی اس معاشی حکمت عملی پر اگر صحیح طریقہ سے عمل ہو تو ۵ سے ۱۰ سال کے اندر اندر اس ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ہم یہاں سے غربت کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہم یہاں معاشی انصاف لا سکتے ہیں، ہم یہاں کے عام شہری کی زندگی کو باعزت بنا سکتے
آئیے ! سرمایہ داری اور اشتراکیت پر لعنت بھیجتے ہوئے اسلام کے معاشی نظام پر شعور کے ساتھی فہم و فراست کے ساتھ عمل کریں اور دنیا کے سامنے ایک نئی مثال قائم کریں۔ یہ ہے جماعت اسلامی کا معاشی پروگرام ۔
وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین