کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف سنجیدگی اور خلوص کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں ۔ یہ جذباتیت اور عدم توازن اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظر انداز کر کے خیالی ترک تا زیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات
66
کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن – حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں چوٹی کی ملاقاتیں راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوار ہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قو تیں اور دباؤ مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں ان کے موثر تر ہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہر و معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے اعلان لاہور تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ہنوز دلی دور است“ کا ہے ۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں باقی تمام امور ضمنی یا ڈیلی ہیں ۔
پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے محض مینار پاکستان پر حاضری کا نہیں ۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک نا جائز عمل سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ سو جون ۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھر ایک ہوتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے ) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزار سالہ اقتداراور تقسیم ملک کے ظلم دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی آرایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو بر عظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست 2 باست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر اور ایک دوسرے کو مبنی بر حق ریاست تسلیم کیے بغیر حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔ گذشتہ سال کجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کا قاتل مودی ہی نہیں، ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت
نے ساری الیکشن کی مہم مشرف پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر کتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔ ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی /شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خود خود کش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں ) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔ نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن
پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر
₨ 0
کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف سنجیدگی اور خلوص کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں ۔ یہ جذباتیت اور عدم توازن اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظر انداز کر کے خیالی ترک تا زیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات
66
کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن – حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں چوٹی کی ملاقاتیں راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوار ہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قو تیں اور دباؤ مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں ان کے موثر تر ہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہر و معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے اعلان لاہور تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ہنوز دلی دور است“ کا ہے ۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں باقی تمام امور ضمنی یا ڈیلی ہیں ۔
پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے محض مینار پاکستان پر حاضری کا نہیں ۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک نا جائز عمل سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ سو جون ۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھر ایک ہوتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے ) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزار سالہ اقتداراور تقسیم ملک کے ظلم دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی آرایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو بر عظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست 2 باست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر اور ایک دوسرے کو مبنی بر حق ریاست تسلیم کیے بغیر حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔ گذشتہ سال کجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کا قاتل مودی ہی نہیں، ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت
نے ساری الیکشن کی مہم مشرف پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر کتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔ ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی /شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خود خود کش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں ) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔ نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن
Reviews
There are no reviews yet.