۴۷
لالہ صحرائی: چند تاثرات
پروفیسر خورشید احمد
انسانی تعلقات کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی فرد کے ساتھ مدت العمر بطور رفیق کا ریا کاروباری تعلق کے باوجود، فریقین ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چاہے زندگی میں عملاً ملاقاتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہو مگر روح اور قلب میں ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ مکانی بعد کے علی الرغم مسلسل رفاقت اور روح کی سرشاری کی نسبت محسوس ہوتی ہے۔ برادر محترم لالۂ صحرائی سے میرا تعلق بھی اس دوسری نوعیت کا تھا۔ بالمشافہ ملاقاتیں کراچی، لاہور اور ملتان میں ، زیادہ سے زیادہ سات آٹھ بار ہوئیں لیکن ۱۹۵۵ میں پہلی ملاقات کے بعد سے، ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے تک، ہر لمحہ احساس رفاقت رہا اور ان کے عالم فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی ان کی شفقت محبت اور رفاقت کی یا دسرمایۂ حیات ہے۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں انسان کبھی بھول نہیں سکتا۔ طالب علمی کے دور میں جب اسلامی جمعیت طلبہ سے میرا رشتہ جڑا تو فطری طور پر جماعت کی شخصیات سے بھی تعلق خاطر قائم ہوا۔ کراچی میں محترم چودھری غلام محمد صاحب جماعت کے روح رواں اور ہمارے محسن اور مربی تھے۔ ان کا اخلاق، ان کا اخلاص اور ان کا پیار وہ چیزیں تھیں جو انسان کو ان کا گرویدہ بنادیتی تھیں۔ تحریک ان کی زندگی میں اس طرح رچی بسی تھی کہ ان کی شخصیت اور جماعت کا الگ الگ تصور ہی ممکن نہ تھا۔ میں کراچی جمعیت کا ناظم تھا اور وہ میری علمی اور اخلاقی تربیت میں ایک باپ سے بھی زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ترجمان القرآن تو میرے والد ماجد نذیر احد قریشی) کے پاس آتا تھا اور جمعیت سے وابستگی کے بعد اس کے لفظ لفظ کو پڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا مگر محترم
یاد نامہ لالہ صحرائی از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
₨ 0
۴۷
لالہ صحرائی: چند تاثرات
پروفیسر خورشید احمد
انسانی تعلقات کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی فرد کے ساتھ مدت العمر بطور رفیق کا ریا کاروباری تعلق کے باوجود، فریقین ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چاہے زندگی میں عملاً ملاقاتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہو مگر روح اور قلب میں ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ مکانی بعد کے علی الرغم مسلسل رفاقت اور روح کی سرشاری کی نسبت محسوس ہوتی ہے۔ برادر محترم لالۂ صحرائی سے میرا تعلق بھی اس دوسری نوعیت کا تھا۔ بالمشافہ ملاقاتیں کراچی، لاہور اور ملتان میں ، زیادہ سے زیادہ سات آٹھ بار ہوئیں لیکن ۱۹۵۵ میں پہلی ملاقات کے بعد سے، ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے تک، ہر لمحہ احساس رفاقت رہا اور ان کے عالم فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی ان کی شفقت محبت اور رفاقت کی یا دسرمایۂ حیات ہے۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں انسان کبھی بھول نہیں سکتا۔ طالب علمی کے دور میں جب اسلامی جمعیت طلبہ سے میرا رشتہ جڑا تو فطری طور پر جماعت کی شخصیات سے بھی تعلق خاطر قائم ہوا۔ کراچی میں محترم چودھری غلام محمد صاحب جماعت کے روح رواں اور ہمارے محسن اور مربی تھے۔ ان کا اخلاق، ان کا اخلاص اور ان کا پیار وہ چیزیں تھیں جو انسان کو ان کا گرویدہ بنادیتی تھیں۔ تحریک ان کی زندگی میں اس طرح رچی بسی تھی کہ ان کی شخصیت اور جماعت کا الگ الگ تصور ہی ممکن نہ تھا۔ میں کراچی جمعیت کا ناظم تھا اور وہ میری علمی اور اخلاقی تربیت میں ایک باپ سے بھی زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ترجمان القرآن تو میرے والد ماجد نذیر احد قریشی) کے پاس آتا تھا اور جمعیت سے وابستگی کے بعد اس کے لفظ لفظ کو پڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا مگر محترم
Reviews
There are no reviews yet.