اس کشیدہ صورت حال کے باوجود، مصر کے سرکاری وفد میں شامل ایک نوجوان طالب علم بڑی خاموشی سے آ کر ہمیں ملا اور اس نے کہا کہ : ” میں دل و جان سے اخوان کا ہمدرد ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جو اقدام کیا ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔ میں اپنے ہزاروں مظلوم ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں“۔ در اصل عوامی سطح پر جولوگ اخوان کے گرویدہ ہیں ، وہ تو گرویدہ ہیں ہی مگر جو اس تحریک سے باہر ہیں، میں نے ان پر بھی اخوان کا بے پناہ فکری و اخلاقی اثر دیکھا ہے۔ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں، پارلیمنٹ کے اندر ، وزرا اور عرب لیگ کے افسروں سے مجھے بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے ہیں، اور جب بھی کھلے دل کے ساتھ انھوں نے آف دی ریکارڈ بات کی تو میں نے انھیں یہ کہنے پر مجبور پایا کہ: ” اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی قابل لحاظ قوت ایسی ہے جو مصر کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف اخوان المسلمون ہے“۔
باطل کے مذموم عزائم: حسن البنا نے ایسے نا مساعد حالات میں کام کیا، جب کہ: ایک طرف سامراجی طاغوت اور دوسری طرف مقامی اشرافیہ تھی (یہ مقامی اشرافیہ ہی غالب تعداد میں، سامراجی قوتوں کی آلہ کار رہی ہے ۔ تیسری جانب وہ ہم جو فوجی افسران تھے جنھوں نے اقتدار کا مزا چکھ لیا تھا۔ یہ مقتدر فوجی طبقہ ایک وسیع عالمی منظر نامے میں مغربی یا کمیونسٹ روسی سامراج کا آلہ کار بنا۔ فوجی انقلابات کا یہ سلسلہ شرق اوسط سے شروع ہوا اور ۱۹۵۸ء میں پاکستان تک آپہنچا۔ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کی اس فوجی لہر نے افریقہ کے نو آزاد ممالک کی بڑی تعداد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دراصل یہ حکمت عملی مغرب کے پیش نظر تھی ، کہ جو ممالک آزاد ہور ہے ہیں وہ آزاد ہو کر بھی سامراجی قوتوں کے لیے چیلنج نہ بننے پائیں، اور کسی مثبت بنیاد کے بل بوتے پر نظریاتی یا معاشی و سیاسی قوت کا نیا مرکز نہ بن سکیں، اور اپنی معاشی ، تجارتی، تہذیبی اور سیاسی پالیسیوں میں تابع
مہمل بن کر رہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اشترا کی عناصر نے اور امریکا اور اس کے حواریوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو خریدیں، معاشی مفادات کے جال میں پھنسا ئیں، سیاسی اور فوجی معاہدات کے ذریعے ان قوموں کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ لیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے یہ اصول طے کیا کہ ”فوجی قیادت ہی ہماری بہتر حلیف ہے۔ جو اپنے ملکوں میں بغاوت کر کے اقتدار پر شبخون مارے، اور ہماری مدد سے ہماری قائم مقام (proxy) بن کر ہماری مرضی پوری کرے۔ کچھ رپورٹوں میں صاف لکھا ہے کہ مغرب زدہ گروہوں کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کرنا خواہ یہ فوجی انقلاب اور استبدادی حکومت (despotic rule) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، مغربی اقوام کے قومی مفاد میں ہے، تا کہ مذکورہ ممالک کے عوام کو قابو میں رکھا جاسکے۔ مائلز کوپ لینڈ
البنا اور احیائے اسلام
₨ 0
اس کشیدہ صورت حال کے باوجود، مصر کے سرکاری وفد میں شامل ایک نوجوان طالب علم بڑی خاموشی سے آ کر ہمیں ملا اور اس نے کہا کہ : ” میں دل و جان سے اخوان کا ہمدرد ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جو اقدام کیا ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔ میں اپنے ہزاروں مظلوم ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں“۔ در اصل عوامی سطح پر جولوگ اخوان کے گرویدہ ہیں ، وہ تو گرویدہ ہیں ہی مگر جو اس تحریک سے باہر ہیں، میں نے ان پر بھی اخوان کا بے پناہ فکری و اخلاقی اثر دیکھا ہے۔ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں، پارلیمنٹ کے اندر ، وزرا اور عرب لیگ کے افسروں سے مجھے بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے ہیں، اور جب بھی کھلے دل کے ساتھ انھوں نے آف دی ریکارڈ بات کی تو میں نے انھیں یہ کہنے پر مجبور پایا کہ: ” اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی قابل لحاظ قوت ایسی ہے جو مصر کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف اخوان المسلمون ہے“۔
باطل کے مذموم عزائم: حسن البنا نے ایسے نا مساعد حالات میں کام کیا، جب کہ: ایک طرف سامراجی طاغوت اور دوسری طرف مقامی اشرافیہ تھی (یہ مقامی اشرافیہ ہی غالب تعداد میں، سامراجی قوتوں کی آلہ کار رہی ہے ۔ تیسری جانب وہ ہم جو فوجی افسران تھے جنھوں نے اقتدار کا مزا چکھ لیا تھا۔ یہ مقتدر فوجی طبقہ ایک وسیع عالمی منظر نامے میں مغربی یا کمیونسٹ روسی سامراج کا آلہ کار بنا۔ فوجی انقلابات کا یہ سلسلہ شرق اوسط سے شروع ہوا اور ۱۹۵۸ء میں پاکستان تک آپہنچا۔ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کی اس فوجی لہر نے افریقہ کے نو آزاد ممالک کی بڑی تعداد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دراصل یہ حکمت عملی مغرب کے پیش نظر تھی ، کہ جو ممالک آزاد ہور ہے ہیں وہ آزاد ہو کر بھی سامراجی قوتوں کے لیے چیلنج نہ بننے پائیں، اور کسی مثبت بنیاد کے بل بوتے پر نظریاتی یا معاشی و سیاسی قوت کا نیا مرکز نہ بن سکیں، اور اپنی معاشی ، تجارتی، تہذیبی اور سیاسی پالیسیوں میں تابع
مہمل بن کر رہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اشترا کی عناصر نے اور امریکا اور اس کے حواریوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو خریدیں، معاشی مفادات کے جال میں پھنسا ئیں، سیاسی اور فوجی معاہدات کے ذریعے ان قوموں کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ لیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے یہ اصول طے کیا کہ ”فوجی قیادت ہی ہماری بہتر حلیف ہے۔ جو اپنے ملکوں میں بغاوت کر کے اقتدار پر شبخون مارے، اور ہماری مدد سے ہماری قائم مقام (proxy) بن کر ہماری مرضی پوری کرے۔ کچھ رپورٹوں میں صاف لکھا ہے کہ مغرب زدہ گروہوں کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کرنا خواہ یہ فوجی انقلاب اور استبدادی حکومت (despotic rule) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، مغربی اقوام کے قومی مفاد میں ہے، تا کہ مذکورہ ممالک کے عوام کو قابو میں رکھا جاسکے۔ مائلز کوپ لینڈ
Reviews
There are no reviews yet.