۱۴
میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زیر زمین تحریکیں جاری ہیں جنہیں مسلم بورڈوں کے بعض علماء بھی رجنہیں مسلمان سرکاری علماء” کہتے ہیں ، تقویت پہنچارہے ہیں۔ مذہبی بیداری اور احیا کے ساتھ معاشرتی، اقتصادی، سیاسی اور تہذیب و ثقافت کے شعبوں میں بھی بیداری اور شعور پیدا ہوا۔ مسائل کے بارے میں نئی نسل کے سورج کے زاویے اور روسی حکمرانوں کے متعلق رویے تبدیل ہوئے۔ اس طرح پوری اجتماعی زندگی میں بیداری کی لہری پیدا ہوگئیں۔ اس فضا کو مسلمانوں کی بڑھتی اور روسیوں کی گھٹتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے طوفانی مسائل نے مزید گھمبیر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے
میں بحث مباحثہ عام ہو چلا ہے۔
محترم آبادشاہ پوری نے ان تمام موضوعات اور مسائل پر تحقیق کی ہے۔ مصنف گزشتہ بیس بائیں برس سے اور النہر کے مسلمانوں اور عالم اسلام میں روسیوں کی نظریاتی اور سیاسی حکمت عملی پر لکھ رہے ہیں۔ وہ زیر مطالعہ علاقوں کے مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے مسائل پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں، اور پیش آمدہ مسائل پر چھچھلتی یا اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر نہیں رہ جاتے بلکہ ان کے اندر اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مسال کے پیچھے کار فرما اسباب وعوائل کا ایک مورخ کی طرح کھوج لگاتے ہیں اور صاحب فکر تجزیہ نگار کی طرح تجزیہ کرتے اور نتائج کا استنباط کرتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت پوری کتاب میں پائی جاتی ہے۔ اس میں ماوراء النہر اور قفقاز کے مسلمانوں کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اپنے حقائق کے ساتھ سامنے آگیا ہے اور اس کے آئینے میں ان بلند بانگ دعوؤں کا حقیقی چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو روسی حکمران مسلمانوں کی آزادی خوشحالی، اقتصادی و معاشرتی ترقی اور دستوری حقوق و مراعات کے بارے میں کرتے رہتے ہیں۔
مصنف نے ان تمام پہلوؤں پر جامع مبسوط اور مدل گفتگو کی ہے۔
کتاب کا آخری باب اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ سلمانوں کے مستقبل سے بحث کرتا ہے۔ مغربی مصنفین کے نزدیک مسلمان علاقوں کے حالات ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ روسی سرے سے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ مصنف نے فریقین کے موقف کا تجزیہ کیا ہے اور گزشتہ مباحث کی روشنی میں اس امر پر بحث کی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قید وحید کا جو جذبہ پیدا ہو چلا ہے اس کی کامیابی
مسلم امہ سوویت روس میں
₨ 0
۱۴
میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زیر زمین تحریکیں جاری ہیں جنہیں مسلم بورڈوں کے بعض علماء بھی رجنہیں مسلمان سرکاری علماء” کہتے ہیں ، تقویت پہنچارہے ہیں۔ مذہبی بیداری اور احیا کے ساتھ معاشرتی، اقتصادی، سیاسی اور تہذیب و ثقافت کے شعبوں میں بھی بیداری اور شعور پیدا ہوا۔ مسائل کے بارے میں نئی نسل کے سورج کے زاویے اور روسی حکمرانوں کے متعلق رویے تبدیل ہوئے۔ اس طرح پوری اجتماعی زندگی میں بیداری کی لہری پیدا ہوگئیں۔ اس فضا کو مسلمانوں کی بڑھتی اور روسیوں کی گھٹتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے طوفانی مسائل نے مزید گھمبیر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے
میں بحث مباحثہ عام ہو چلا ہے۔
محترم آبادشاہ پوری نے ان تمام موضوعات اور مسائل پر تحقیق کی ہے۔ مصنف گزشتہ بیس بائیں برس سے اور النہر کے مسلمانوں اور عالم اسلام میں روسیوں کی نظریاتی اور سیاسی حکمت عملی پر لکھ رہے ہیں۔ وہ زیر مطالعہ علاقوں کے مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے مسائل پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں، اور پیش آمدہ مسائل پر چھچھلتی یا اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر نہیں رہ جاتے بلکہ ان کے اندر اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مسال کے پیچھے کار فرما اسباب وعوائل کا ایک مورخ کی طرح کھوج لگاتے ہیں اور صاحب فکر تجزیہ نگار کی طرح تجزیہ کرتے اور نتائج کا استنباط کرتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت پوری کتاب میں پائی جاتی ہے۔ اس میں ماوراء النہر اور قفقاز کے مسلمانوں کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اپنے حقائق کے ساتھ سامنے آگیا ہے اور اس کے آئینے میں ان بلند بانگ دعوؤں کا حقیقی چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو روسی حکمران مسلمانوں کی آزادی خوشحالی، اقتصادی و معاشرتی ترقی اور دستوری حقوق و مراعات کے بارے میں کرتے رہتے ہیں۔
مصنف نے ان تمام پہلوؤں پر جامع مبسوط اور مدل گفتگو کی ہے۔
کتاب کا آخری باب اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ سلمانوں کے مستقبل سے بحث کرتا ہے۔ مغربی مصنفین کے نزدیک مسلمان علاقوں کے حالات ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ روسی سرے سے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ مصنف نے فریقین کے موقف کا تجزیہ کیا ہے اور گزشتہ مباحث کی روشنی میں اس امر پر بحث کی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قید وحید کا جو جذبہ پیدا ہو چلا ہے اس کی کامیابی
Reviews
There are no reviews yet.