اسلامی تحریکات اور اکیسویں صدی کے چیلنج

 0

افراد کار کی تلاش، تیاری اور تنظیم و تربیت۔ تدریج کے اصول کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی کوشش اور اس میں کھلے انداز میں آزادانہ بحث و مباحثه دعوت، تعلیم اور تعلیم کا طریقہ – – – خفیہ طریقوں جبر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقوں سے اجتناب، جمہوری عمل اور رائے عامہ کی تبدیلی کے ذریعے اسلامی انقلاب بر پا کرنے کی
جد و جہد ۔ ہر اس طریقے سے اجتناب جو فساد فی الارض کا باعث ہو ۔
. صیح طریقے سے اجتماعی جدوجہد — اور وہ بھی ایک تربیت کے ساتھ گھر سے آغاز ہو اپنے معاشرے کی اصلاح اور اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد ہو اُمت مسلمہ کا اتحاد اور امت کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر وترقی کا شعور ہو پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو پہنچانے اور
اللہ کی بندگی کی طرف بلانے کا ذوق اور کوشش ہو اور انصاف پر منی عالمی نظام کے قیام کی فکر ۔ اس پورے کام کو قرآن وسنت کے ابدی اصولوں اور ہدایات کے مطابق انجام دینا۔ اپنے وقت کے تمام جائز اور مفید ذرائع اور وسائل کو اس دعوت کی خدمت میں استعمال کرنا اور مقابلے کی قوت حاصل کرنا ۔۔۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں، آج کے حالات اور مسائل سے مربوط شکل میں پیش کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی تغافل یا تعصب کا شکار نہ ہوا ہو جائے۔ سارے وسائل اللہ کی دین [ گفٹ ہیں اور انھیں اللہ کے دین (اسلام) کی خدمت میں استعمال کرنا ان کا شیح ترین استعمال ہے۔ یہ وسعت اور جدید کاری اسلام کے مزاج کا حصہ اور وقت کی ضرورت
ہے۔
دعوت دین اور اقامت دین کا یہ کام پتھر کی طرح جامد ( monolithic) نہیں ہے ۔ اس میں تنوع اور تکثیر ( plurality) ممکن ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ نیز یہ کام جبلت میں انجام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بڑا صبر آزما اور دیر پا کام ہے۔ اس میں منزل تک پہنچنے کا کوئی مختصر راستہ (short cut) نہیں ہے۔ اس وژن کا ثبات افراد کار کی تیاری عمل اور جد وجہد میں استقامت، تجربات سے سبق سیکھنے اور بندگلی بند گلی سے راستہ نکالئے اپنے مشن اور مقصد پر اعتماد اللہ پر بھروسا اور مسلسل قربانی پیش کرنے میں ہے۔۔ گویا ایمان اجتہاد اور جہاد کے عملی اظہار کے بغیر احیائے اسلام کی منزل پر نہیں کی جاسکتی۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ایک نئی قیادت کا اُبھرنا ضروری ہے اور یہ قیادت محض فکری اور محدود دینی میدان ہی میں نہیں، بلکہ زندگی کے ہر میدان فکروفن، سائنس اور ٹکنالوجی، معاشرت اور معیشت
ادب اور ثقافت سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ہو۔ یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا طرزفکر، عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر، شوری، نئے تجربات عصری ضروریات کا شعور مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں ۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے طرزفکر کا ایک اہم
پہلو ہے۔

SKU: 6849817303b2c8619f33caf2 Categories: , ,

افراد کار کی تلاش، تیاری اور تنظیم و تربیت۔ تدریج کے اصول کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی کوشش اور اس میں کھلے انداز میں آزادانہ بحث و مباحثه دعوت، تعلیم اور تعلیم کا طریقہ – – – خفیہ طریقوں جبر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقوں سے اجتناب، جمہوری عمل اور رائے عامہ کی تبدیلی کے ذریعے اسلامی انقلاب بر پا کرنے کی
جد و جہد ۔ ہر اس طریقے سے اجتناب جو فساد فی الارض کا باعث ہو ۔
. صیح طریقے سے اجتماعی جدوجہد — اور وہ بھی ایک تربیت کے ساتھ گھر سے آغاز ہو اپنے معاشرے کی اصلاح اور اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد ہو اُمت مسلمہ کا اتحاد اور امت کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر وترقی کا شعور ہو پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو پہنچانے اور
اللہ کی بندگی کی طرف بلانے کا ذوق اور کوشش ہو اور انصاف پر منی عالمی نظام کے قیام کی فکر ۔ اس پورے کام کو قرآن وسنت کے ابدی اصولوں اور ہدایات کے مطابق انجام دینا۔ اپنے وقت کے تمام جائز اور مفید ذرائع اور وسائل کو اس دعوت کی خدمت میں استعمال کرنا اور مقابلے کی قوت حاصل کرنا ۔۔۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں، آج کے حالات اور مسائل سے مربوط شکل میں پیش کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی تغافل یا تعصب کا شکار نہ ہوا ہو جائے۔ سارے وسائل اللہ کی دین [ گفٹ ہیں اور انھیں اللہ کے دین (اسلام) کی خدمت میں استعمال کرنا ان کا شیح ترین استعمال ہے۔ یہ وسعت اور جدید کاری اسلام کے مزاج کا حصہ اور وقت کی ضرورت
ہے۔
دعوت دین اور اقامت دین کا یہ کام پتھر کی طرح جامد ( monolithic) نہیں ہے ۔ اس میں تنوع اور تکثیر ( plurality) ممکن ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ نیز یہ کام جبلت میں انجام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بڑا صبر آزما اور دیر پا کام ہے۔ اس میں منزل تک پہنچنے کا کوئی مختصر راستہ (short cut) نہیں ہے۔ اس وژن کا ثبات افراد کار کی تیاری عمل اور جد وجہد میں استقامت، تجربات سے سبق سیکھنے اور بندگلی بند گلی سے راستہ نکالئے اپنے مشن اور مقصد پر اعتماد اللہ پر بھروسا اور مسلسل قربانی پیش کرنے میں ہے۔۔ گویا ایمان اجتہاد اور جہاد کے عملی اظہار کے بغیر احیائے اسلام کی منزل پر نہیں کی جاسکتی۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ایک نئی قیادت کا اُبھرنا ضروری ہے اور یہ قیادت محض فکری اور محدود دینی میدان ہی میں نہیں، بلکہ زندگی کے ہر میدان فکروفن، سائنس اور ٹکنالوجی، معاشرت اور معیشت
ادب اور ثقافت سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ہو۔ یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا طرزفکر، عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر، شوری، نئے تجربات عصری ضروریات کا شعور مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں ۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے طرزفکر کا ایک اہم
پہلو ہے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “اسلامی تحریکات اور اکیسویں صدی کے چیلنج”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »