اسلامی تصور عبادت اور روزے کی حکمت

 0

قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے ترجمہ (میں نے جنوں اور انسانوں کو محض عبادت کیلئے پیدا کیا ہے) لہذا ہمارے لئے اس بات کا سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ عبادت کیا ہے اور اس کا صحیح تصور کیا ہے۔ اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو، آپ اپنے آپ کو دائی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں ، آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں خدا کی شریعت کے مطابق کریں، آپ کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا، غرض کہ سب کچھ خدا کے قانون کی پابندی میں ہو خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور زندگی کے جو فرائض آپ سے متعلق کئے ہیں ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضا مندی کے ساتھ اٹھا ئیں اور ان کو اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی ہے آپ ہر وقت اور ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک حرکت کا حساب دینا ہے اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ اپنے محلے میں ہمسایوں کے ساتھ اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اپنے کاروبار میں اہل معالمہ کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور ریاضت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے ذکر الہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض زبان پر اللہ اللہ جاری ہو بلکہ اصل ذکر الہی ہے کہ جو چیزیں خدا سے نافل کرنے والی ہیں ان میں آپ یہ پھنسیں اور پھر خدا سے نافل نہ ہوں۔
اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے اس کا عہد یعنی بندہ بن کر رہے اور بندہ بن کر رہنے کا نام ہی عبادت ہے کہنے کو تو یہ بات بہت چھوٹی سی ہے اور بڑی آسانی سے اسے زبان ہلا کر ہے مگر عملاً انسان کی پوری زندگی کا اپنے تمام ادا کیا جا سکتا ہے؟ گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں اس کے لئے بڑی زبر دست تربیت کی ضرورت ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے ، مضبوط کردار بنایا جائے عادات و خصائل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا جائے اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کر لیا جائے بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لئے تیار کرنے والا ہو اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو یہی غرض ہے کہ جس کے لئے اسلام میں نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں ان کو عبادات کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بس عبادات میں ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس اصلی عبادت کیلئے انسان کو تیار کرتی ہیں یا یہ کہ یہ اس کے لئے تربیت کا لازمی نصاب میں منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچہ بنتا ہے اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادت الہی میں تبدیل نہیں ہو سکتی نیز یہ کہ ان کے ذریعے سے بندہ رب سے قریب تر آتا ہے اس کی روح کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور وہ زمین و آسمان کے مالک کا محبوب اور پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔
چنانچہ روزے کا مقصد احساس بندگی کی یاد دہانی کے ساتھ ہی ساتھ اطاعت امر کی تربیت دینا بھی ہے۔ روزہ تا ہے کہ اس انسان کو مہمینہ بھر کئی کئی گھنٹے اس حالت میں رکھتا ہے کہ کو اپنی ابتدائی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی خداوند عالم سے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اپنی خواہش ہو یا دوسروں کی انسان بلا اذن خداوندی روزه نہیں چھوڑ سکتا: اس طرح اس کی اطاعتیں ہر طرف سے سمٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی طرف پھر جاتی ہیں۔
روزے میں اگرچه به ظاهر صرف دو خواهشات (غذا اور صنفی خواہشات پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان زندگی کا احسان پوری طرح طاری رہے۔ اس کے بغیر اگر انسان محض بھو کا پیا سارہ لے تویہ روزہ لاش کی طرح بے روح ہو گا ۔ نبی نے فرمایا ہے کہ “جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے”۔ ای طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ “کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان دونوں احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے کا مقصد بھو کا پیاسا رہنا نہیں بلکہ تقویٰ اور طہارت ہے۔
تعمیر سیرت : روزے کا تیسرا مقصد انسان کی سیرت کی تعمیر ہے۔ اس سیرت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ تقوی سے مراد
کوئی خاص شکل و صورت اختیار نہیں کرنا نہیں ہے بلکہ قرآن اس کو بڑے وسیع مضمون میں استعمال کرتا ہے وہ پوری انسانی زندگی کیلئے اپنے رویے کو تقویٰ کے نام سے تعمیر کرتا ہے جس کی بنیاد احسان بندگی اور ذمہ داری پر ہو اس کے مخالف رویے کا نام قرآن کی رو سے تجور ہے) دنیا کے فساد کا سبب فجور ہے اور دیگر عبادات کی طرح روزے کا مقصد بھی یہ ہے کہ انسان میں فجور کے رحجانات ختم کئے جائیں اور تقوی کو نشو نما دیا جائے اب دیکھیے کہ روزہ کسی طریقے سے اس کام کے سر انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے تم پر پابندی لگائی ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھاؤ۔ نہ صرف جلوت میں بلکہ خلوت میں بھی اکل و شرب سے پر ہیز کرو۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے تو غور کیجئے کہ اس کے نفس میں کسی قسم کی کیفیات ابھرتی ہیں۔
اول تو یہ کہ اسے خدا کے عالم الغیب ہونے کا پورا یقین ہے اور یہی یقین ہے جو اسے تنہائی میں بھی روزے کے حدود دوم اس کا آخرت اور حساب و کتاب پر پورا ایمان ہے اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی شخص 13 14 گھنٹے بھو کا نہیں رہ سکتا ہے سوم اس کے اندر اپنے فرض کا احساس ہے بغیر اس کے کہ کوئی شخص اس پر کھانے پینے کی پابندی لگائے اس نے خود سے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی۔ چهارم مادیت اور روحانیت کے انتخاب میں اس نے گرفت روحانیت کو فتخب کرلیا اور دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر یادی نقصان برداشت کر لیا ۔ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ سہولت دیکھ کر مناسب موسم میں روزے رکھ لے بلکہ جو بھی وقت مقررکیا گیا ہے کہ اس نے اس کی پابندی کی ہے۔ ششم اس میں صبر و استقامت تحمل یکسوئی اور دنیوی تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اتنی ہے کہ رضائے الہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کردیا گیا ہے یہ کیفیات جو روزہ رکھنے کے ساتھ انسان کی زندگی میں ابھرتی ہیں روزوں میں عملاً ” ایک طاقت بن جاتی ہیں اور ہر سال ایک ماہ روزہ رکھتے رکھتے یہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔
ضبط نفس : اس تربیت کے ضابطے میں کنے کے لئے دو خواہشوں کو خاص طور پر منتخب کیا گیا ہے ۔ یعنی بھوک اور جنسی خواہش اور ان کے ساتھ تیسری خواہش آرام کرنے کی خواہش بھی زد میں آجاتی ہے اس لئے کہ تراویح پڑھنے اور سحری کے لئے اٹھنے سے اس پر بھی کافی ضرب پڑتی ہے۔
اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو جبریل علیہ السلام رمضان میں ہر رات حضور سے ملتے تھے روزہ سال بھر میں ایک ماہ کا غیر معمولی نظام تربیت ہے۔

SKU: 6849817b03b2c8619f33cdb8 Categories: , ,

قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے ترجمہ (میں نے جنوں اور انسانوں کو محض عبادت کیلئے پیدا کیا ہے) لہذا ہمارے لئے اس بات کا سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ عبادت کیا ہے اور اس کا صحیح تصور کیا ہے۔ اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو، آپ اپنے آپ کو دائی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں ، آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں خدا کی شریعت کے مطابق کریں، آپ کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا، غرض کہ سب کچھ خدا کے قانون کی پابندی میں ہو خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور زندگی کے جو فرائض آپ سے متعلق کئے ہیں ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضا مندی کے ساتھ اٹھا ئیں اور ان کو اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی ہے آپ ہر وقت اور ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک حرکت کا حساب دینا ہے اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ اپنے محلے میں ہمسایوں کے ساتھ اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اپنے کاروبار میں اہل معالمہ کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور ریاضت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے ذکر الہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض زبان پر اللہ اللہ جاری ہو بلکہ اصل ذکر الہی ہے کہ جو چیزیں خدا سے نافل کرنے والی ہیں ان میں آپ یہ پھنسیں اور پھر خدا سے نافل نہ ہوں۔
اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے اس کا عہد یعنی بندہ بن کر رہے اور بندہ بن کر رہنے کا نام ہی عبادت ہے کہنے کو تو یہ بات بہت چھوٹی سی ہے اور بڑی آسانی سے اسے زبان ہلا کر ہے مگر عملاً انسان کی پوری زندگی کا اپنے تمام ادا کیا جا سکتا ہے؟ گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں اس کے لئے بڑی زبر دست تربیت کی ضرورت ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے ، مضبوط کردار بنایا جائے عادات و خصائل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا جائے اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کر لیا جائے بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لئے تیار کرنے والا ہو اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو یہی غرض ہے کہ جس کے لئے اسلام میں نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں ان کو عبادات کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بس عبادات میں ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس اصلی عبادت کیلئے انسان کو تیار کرتی ہیں یا یہ کہ یہ اس کے لئے تربیت کا لازمی نصاب میں منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچہ بنتا ہے اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادت الہی میں تبدیل نہیں ہو سکتی نیز یہ کہ ان کے ذریعے سے بندہ رب سے قریب تر آتا ہے اس کی روح کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور وہ زمین و آسمان کے مالک کا محبوب اور پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔
چنانچہ روزے کا مقصد احساس بندگی کی یاد دہانی کے ساتھ ہی ساتھ اطاعت امر کی تربیت دینا بھی ہے۔ روزہ تا ہے کہ اس انسان کو مہمینہ بھر کئی کئی گھنٹے اس حالت میں رکھتا ہے کہ کو اپنی ابتدائی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی خداوند عالم سے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اپنی خواہش ہو یا دوسروں کی انسان بلا اذن خداوندی روزه نہیں چھوڑ سکتا: اس طرح اس کی اطاعتیں ہر طرف سے سمٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی طرف پھر جاتی ہیں۔
روزے میں اگرچه به ظاهر صرف دو خواهشات (غذا اور صنفی خواہشات پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان زندگی کا احسان پوری طرح طاری رہے۔ اس کے بغیر اگر انسان محض بھو کا پیا سارہ لے تویہ روزہ لاش کی طرح بے روح ہو گا ۔ نبی نے فرمایا ہے کہ “جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے”۔ ای طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ “کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان دونوں احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے کا مقصد بھو کا پیاسا رہنا نہیں بلکہ تقویٰ اور طہارت ہے۔
تعمیر سیرت : روزے کا تیسرا مقصد انسان کی سیرت کی تعمیر ہے۔ اس سیرت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ تقوی سے مراد
کوئی خاص شکل و صورت اختیار نہیں کرنا نہیں ہے بلکہ قرآن اس کو بڑے وسیع مضمون میں استعمال کرتا ہے وہ پوری انسانی زندگی کیلئے اپنے رویے کو تقویٰ کے نام سے تعمیر کرتا ہے جس کی بنیاد احسان بندگی اور ذمہ داری پر ہو اس کے مخالف رویے کا نام قرآن کی رو سے تجور ہے) دنیا کے فساد کا سبب فجور ہے اور دیگر عبادات کی طرح روزے کا مقصد بھی یہ ہے کہ انسان میں فجور کے رحجانات ختم کئے جائیں اور تقوی کو نشو نما دیا جائے اب دیکھیے کہ روزہ کسی طریقے سے اس کام کے سر انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے تم پر پابندی لگائی ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھاؤ۔ نہ صرف جلوت میں بلکہ خلوت میں بھی اکل و شرب سے پر ہیز کرو۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے تو غور کیجئے کہ اس کے نفس میں کسی قسم کی کیفیات ابھرتی ہیں۔
اول تو یہ کہ اسے خدا کے عالم الغیب ہونے کا پورا یقین ہے اور یہی یقین ہے جو اسے تنہائی میں بھی روزے کے حدود دوم اس کا آخرت اور حساب و کتاب پر پورا ایمان ہے اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی شخص 13 14 گھنٹے بھو کا نہیں رہ سکتا ہے سوم اس کے اندر اپنے فرض کا احساس ہے بغیر اس کے کہ کوئی شخص اس پر کھانے پینے کی پابندی لگائے اس نے خود سے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی۔ چهارم مادیت اور روحانیت کے انتخاب میں اس نے گرفت روحانیت کو فتخب کرلیا اور دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر یادی نقصان برداشت کر لیا ۔ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ سہولت دیکھ کر مناسب موسم میں روزے رکھ لے بلکہ جو بھی وقت مقررکیا گیا ہے کہ اس نے اس کی پابندی کی ہے۔ ششم اس میں صبر و استقامت تحمل یکسوئی اور دنیوی تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اتنی ہے کہ رضائے الہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کردیا گیا ہے یہ کیفیات جو روزہ رکھنے کے ساتھ انسان کی زندگی میں ابھرتی ہیں روزوں میں عملاً ” ایک طاقت بن جاتی ہیں اور ہر سال ایک ماہ روزہ رکھتے رکھتے یہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔
ضبط نفس : اس تربیت کے ضابطے میں کنے کے لئے دو خواہشوں کو خاص طور پر منتخب کیا گیا ہے ۔ یعنی بھوک اور جنسی خواہش اور ان کے ساتھ تیسری خواہش آرام کرنے کی خواہش بھی زد میں آجاتی ہے اس لئے کہ تراویح پڑھنے اور سحری کے لئے اٹھنے سے اس پر بھی کافی ضرب پڑتی ہے۔
اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو جبریل علیہ السلام رمضان میں ہر رات حضور سے ملتے تھے روزہ سال بھر میں ایک ماہ کا غیر معمولی نظام تربیت ہے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “اسلامی تصور عبادت اور روزے کی حکمت”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »