ترجمان القرآن، جولائی ۳۰۹ ء
اشارات
سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کر دی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیر مبہم، اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور انداز گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں محض ذاتی جذبات و احساسات پر معنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔
خطاب کے مثبت پہلو
صدراوباما کے اس خطاب میں جو ثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدر بش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ اگر چہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں ۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور بیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقہ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارہ یہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نيويارک ٹائمز ۳۰ جون ۲۰۰۹ ء ) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے: اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق ، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیر اثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں ، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کوئی روشنی میں دیکھیں۔ میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے که موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں نئے جائے میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ
امریکا اورعالمی اسلام
₨ 0
ترجمان القرآن، جولائی ۳۰۹ ء
اشارات
سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کر دی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیر مبہم، اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور انداز گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں محض ذاتی جذبات و احساسات پر معنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔
خطاب کے مثبت پہلو
صدراوباما کے اس خطاب میں جو ثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدر بش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ اگر چہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں ۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور بیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقہ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارہ یہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نيويارک ٹائمز ۳۰ جون ۲۰۰۹ ء ) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے: اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق ، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیر اثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں ، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کوئی روشنی میں دیکھیں۔ میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے که موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں نئے جائے میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ
Reviews
There are no reviews yet.