اگر تو نے صدمے کے شروع میں صبر کیا اور میری رضا اور اجر و ثواب کو پیش نظر رکھا تو میں تیرے لیے جنت سے کم اور اس کے سوا کسی اجر و ثواب پر راضی نہ ہوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے اور تمدن میں خود کشی کے واقعات شاذ شاذ ہی رونما ہوتے ہیں۔ ہر دور میں مسلمان ہی وہ قوم ہے جس کے یہاں خود کشی کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) نے اپنی کتاب تاریخ عرب (History of the Arabs) میں اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں خود کشی کی کوئی روایت موجود نہیں۔ آج بھی دنیا میں خود کشی کے بارے میں جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ساری خرابیوں اور بیرونی تہذیبی اثرات کے باوجود اس کا رواج مسلم معاشرے اور ممالک میں سب سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ “SocialForces” مطبوعہ جون ۱۹۸۹ میں شائع شدہ ایک شماریاتی رپورٹ میں ملز سمپس اور جارج کنکلن اس امر کا اعتراف کرتے ہیں
که:
آبادی میں مسلمانوں کی فی صد تعداد کسی قوم کی خود کشی کی شرح سے منفی نسبت رکھتی ہے اور یہ حقیقت معاشی، اجتماعی اور آبادیات کے عوامل کے جدید ہونے کے باوجود قائم رہتی ہے۔ 64 Vol)
No. 4, pp 945-964)
یہ اسلام کی فطرت اور اس کے تاریخی اور تہذیبی کردار کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے ایک طرف ایمان اور عقیدہ توحید و آخرت پر مبنی تصور حیات اور زندگی کے امتحان اور آزمایش ہونے کے نظریے پر انفرادی اور اجتماعی اخلاق کی صورت گری کی تو دوسری طرف ایسا اجتماعی نظام اور کفالت عامہ کا انتظام کیا کہ افراد زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں اور خاندان، معاشرہ اور ریاست وہ حالات پیدا کریں جن میں فرد زندگی کے تلخ تھپیڑوں کا مردانہ وار مقابلہ کر سکے۔
خود کشی، خود سوزی اور مسلم معاشرے کا بگاڑ
₨ 0
اگر تو نے صدمے کے شروع میں صبر کیا اور میری رضا اور اجر و ثواب کو پیش نظر رکھا تو میں تیرے لیے جنت سے کم اور اس کے سوا کسی اجر و ثواب پر راضی نہ ہوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے اور تمدن میں خود کشی کے واقعات شاذ شاذ ہی رونما ہوتے ہیں۔ ہر دور میں مسلمان ہی وہ قوم ہے جس کے یہاں خود کشی کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) نے اپنی کتاب تاریخ عرب (History of the Arabs) میں اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں خود کشی کی کوئی روایت موجود نہیں۔ آج بھی دنیا میں خود کشی کے بارے میں جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ساری خرابیوں اور بیرونی تہذیبی اثرات کے باوجود اس کا رواج مسلم معاشرے اور ممالک میں سب سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ “SocialForces” مطبوعہ جون ۱۹۸۹ میں شائع شدہ ایک شماریاتی رپورٹ میں ملز سمپس اور جارج کنکلن اس امر کا اعتراف کرتے ہیں
که:
آبادی میں مسلمانوں کی فی صد تعداد کسی قوم کی خود کشی کی شرح سے منفی نسبت رکھتی ہے اور یہ حقیقت معاشی، اجتماعی اور آبادیات کے عوامل کے جدید ہونے کے باوجود قائم رہتی ہے۔ 64 Vol)
No. 4, pp 945-964)
یہ اسلام کی فطرت اور اس کے تاریخی اور تہذیبی کردار کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے ایک طرف ایمان اور عقیدہ توحید و آخرت پر مبنی تصور حیات اور زندگی کے امتحان اور آزمایش ہونے کے نظریے پر انفرادی اور اجتماعی اخلاق کی صورت گری کی تو دوسری طرف ایسا اجتماعی نظام اور کفالت عامہ کا انتظام کیا کہ افراد زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں اور خاندان، معاشرہ اور ریاست وہ حالات پیدا کریں جن میں فرد زندگی کے تلخ تھپیڑوں کا مردانہ وار مقابلہ کر سکے۔
Reviews
There are no reviews yet.