علامہ اقبال اور فقہ کی جدید شکیل

 0

چندان راد
1-4
تکمیل این احساس از ضبط روایات کمیته ممکن گردد.
اسلامی قانون شیر
اسی باب میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک قوم اپنے وجود اور اپنی حقیقت کو صرف اپنے ماضی ہی سے جانتی ہے اور کسی قوم کے امیار کے لئے صبیح ترین نسخہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ربط قائم کرے اور اپنی روایات کی حفاظت کے ذریعہ قوت حاصل کرے ۔
آپ کا ارشاد ہے :۔
قوم روشن از سواد سرگذشت
خودشناس آمد زیاد سرگذشت
سرگذشت اوگرا از یادش رود نسخه بود ترا اے ہوشمندی
باز اندر نیستی گم می شود؛
ربط ایام آمده شیرازه بند
ربط ایام است مارا پیر آن سوزنش حفظ روایات کہن چیست تاریخ اے زخود بیگا نہ داستان قصه و افسانه این ترا از خویشتن آگه کند آشنائے کا ر و مرد ره کنند جسم قمت را چو اعصاب است این
روح را سرمایه تاب است این
علامہ اقبال مرز یہ کہتے تھے۔ استان اے پریشان محفل دیرینہ ار
مرد شمع زندگی در سینه است
چاره کار خود از تقلید کن
نقش بر دل مفتی توحید کن آپ کا ارشا و تو یہ ہے کہ وہ ” مفصل گردد و تقویم حیات تمت از تقلید می گیرد ثبات و
الله شاه آبا رو که این جمعیت است معنی تقلید ضبط لمت است یہ تھا اقبال کا طرز فکر ۔ آپ نے اپنے لیکچرز میں بھی بعض جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے۔ شاکی و با زندگی اپنے ماضی کی تاریخ کی قوت سے آگے بڑھتی ہے اور معاشرت تبدیلی کے چینی نظر قدامت پسندی کی اقدار اور کار کردگی سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے ۔ کوئی قوم مکمل طور سے اپنے ماضی کو مسترد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ماضی ہی ہے جو ان کے قومی تشخص کی صورت گری کرتا ہے …….. … اور مسلمانوں کے معاشرہ میں قوانین پر نظرثانی اور بھی زیادہ نازک ہے بیہاں مصلح کی ذمہ داری کچھ اور مینی نزاکت اختیار کرلیتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال اس ہے قید آنالوی کو سنا نہیں رکھ سکتے تھے جس کو لوگوں نے
ان سے منسوب کیا ہے۔ رد) اقبال کے نزدیک اجتہاد کافرض شخص سرانجام نہیں دے سکتا۔ جبکہ یہ کام انہیں کا ہے جویں کا علم اور ہم رکھے ہوں اور جن کے کردار پر اعتبار کیا جا سکتا ہو۔ رموز بے خودی میں اجتہادار تقلید کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اقبال نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کم نظر علماء کے اجتہاد مقالمہ میں تعلمی زیادہ محتاط طریقہ ہے کیونکہ ؟ اسلاف کی فضل خواہشات کی تابع نہیں تھی ، اور اسلاف صالحین

SKU: 6849817303b2c8619f33caa2 Categories: , ,

چندان راد
1-4
تکمیل این احساس از ضبط روایات کمیته ممکن گردد.
اسلامی قانون شیر
اسی باب میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک قوم اپنے وجود اور اپنی حقیقت کو صرف اپنے ماضی ہی سے جانتی ہے اور کسی قوم کے امیار کے لئے صبیح ترین نسخہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ربط قائم کرے اور اپنی روایات کی حفاظت کے ذریعہ قوت حاصل کرے ۔
آپ کا ارشاد ہے :۔
قوم روشن از سواد سرگذشت
خودشناس آمد زیاد سرگذشت
سرگذشت اوگرا از یادش رود نسخه بود ترا اے ہوشمندی
باز اندر نیستی گم می شود؛
ربط ایام آمده شیرازه بند
ربط ایام است مارا پیر آن سوزنش حفظ روایات کہن چیست تاریخ اے زخود بیگا نہ داستان قصه و افسانه این ترا از خویشتن آگه کند آشنائے کا ر و مرد ره کنند جسم قمت را چو اعصاب است این
روح را سرمایه تاب است این
علامہ اقبال مرز یہ کہتے تھے۔ استان اے پریشان محفل دیرینہ ار
مرد شمع زندگی در سینه است
چاره کار خود از تقلید کن
نقش بر دل مفتی توحید کن آپ کا ارشا و تو یہ ہے کہ وہ ” مفصل گردد و تقویم حیات تمت از تقلید می گیرد ثبات و
الله شاه آبا رو که این جمعیت است معنی تقلید ضبط لمت است یہ تھا اقبال کا طرز فکر ۔ آپ نے اپنے لیکچرز میں بھی بعض جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے۔ شاکی و با زندگی اپنے ماضی کی تاریخ کی قوت سے آگے بڑھتی ہے اور معاشرت تبدیلی کے چینی نظر قدامت پسندی کی اقدار اور کار کردگی سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے ۔ کوئی قوم مکمل طور سے اپنے ماضی کو مسترد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ماضی ہی ہے جو ان کے قومی تشخص کی صورت گری کرتا ہے …….. … اور مسلمانوں کے معاشرہ میں قوانین پر نظرثانی اور بھی زیادہ نازک ہے بیہاں مصلح کی ذمہ داری کچھ اور مینی نزاکت اختیار کرلیتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال اس ہے قید آنالوی کو سنا نہیں رکھ سکتے تھے جس کو لوگوں نے
ان سے منسوب کیا ہے۔ رد) اقبال کے نزدیک اجتہاد کافرض شخص سرانجام نہیں دے سکتا۔ جبکہ یہ کام انہیں کا ہے جویں کا علم اور ہم رکھے ہوں اور جن کے کردار پر اعتبار کیا جا سکتا ہو۔ رموز بے خودی میں اجتہادار تقلید کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اقبال نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کم نظر علماء کے اجتہاد مقالمہ میں تعلمی زیادہ محتاط طریقہ ہے کیونکہ ؟ اسلاف کی فضل خواہشات کی تابع نہیں تھی ، اور اسلاف صالحین

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “علامہ اقبال اور فقہ کی جدید شکیل”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »