مولانا سعد الدین کی یاد میں

 0

جماعت اسلامی کی جدوجہد کو ایک انقلابی تحریک بنا دیا۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے ، جیسے انداز میں لیکن بڑے محکم دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر ان کو اس قائدانہ صلاحیت پر عبور حاصل تھا کہ کیا چیز کہنے کی ہے اور کیا کام صرف کرنے کا ہے۔ کب کہاں اور کس سے کیا بات کہنی ہے۔ کہاں اظہار میں دعوت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور کہاں سکوت اظہار پر فوقیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دعوت اسلامی کے ساتھ ملت کشمیر کی سیاسی رہنمائی بھی کی۔ بھارت کی بالادستی کو کبھی قبول نہ کیا الحاق کو متنازع کہا اور برملا کہا اور اس کی سزا ایمان اور فخر کے ساتھ بھگتی۔ انھوں نے بیرونی استعمار سے آزادی کی روح نئی نسلوں ہی میں نہیں، سفید ریش بزرگوں میں بھی پھونک دی لیکن اس حکمت اور دانائی کے ساتھ کہ نہ دعوتی اور سیاسی کام کا توازن مجروح ہوا اور نہ تحریک اسلامی کے دستور طریق کار اور مزاج میں کوئی انحراف واقع ہوا۔ یہ توازن یہ اعتدال‘ یہ سوجھ بوجھ ، یہ حکمت اپنی نظیر آپ ہے اور ہماری آج کی قیادتوں کے لیے اس میں بڑی روشنی
اور رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا سعد الدین کی خدمات کو شرف قبول بخشے ، ان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ آمین! جو قبولیت عزت اکرام، محبت اور عقیدت ان کو ان کی بے لوث خدمت کی وجہ سے خود دنیا میں حاصل ہوئی وہ اس امر پر گواہ ہے کہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے تھے۔ جس طرح ان کا چرچا ان کی موت کے بعد بھی جاری رہا اور ان کی جاری کردہ دعوت اور پیغام مسلسل کمیت اور کیفیت ہر اعتبار سے روز افزوں ہے، اس کی بنا پر تو دل سے بے ساختہ یہ آواز نکلتی ہے ۔
بجھا ہے دل تو دل ہی دل کے چرچے ہیں
جو اس طرح سے موت آئے تو کون مرتا ہے
( مولانا سعد الدین کی یاد میں منعقد ہونے والے سیمی بار میں پڑھا گیا۔ اسلام آباد ۱۸ اپریل ۹۹

SKU: 6849817b03b2c8619f33cd68 Categories: , ,

جماعت اسلامی کی جدوجہد کو ایک انقلابی تحریک بنا دیا۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے ، جیسے انداز میں لیکن بڑے محکم دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر ان کو اس قائدانہ صلاحیت پر عبور حاصل تھا کہ کیا چیز کہنے کی ہے اور کیا کام صرف کرنے کا ہے۔ کب کہاں اور کس سے کیا بات کہنی ہے۔ کہاں اظہار میں دعوت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور کہاں سکوت اظہار پر فوقیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دعوت اسلامی کے ساتھ ملت کشمیر کی سیاسی رہنمائی بھی کی۔ بھارت کی بالادستی کو کبھی قبول نہ کیا الحاق کو متنازع کہا اور برملا کہا اور اس کی سزا ایمان اور فخر کے ساتھ بھگتی۔ انھوں نے بیرونی استعمار سے آزادی کی روح نئی نسلوں ہی میں نہیں، سفید ریش بزرگوں میں بھی پھونک دی لیکن اس حکمت اور دانائی کے ساتھ کہ نہ دعوتی اور سیاسی کام کا توازن مجروح ہوا اور نہ تحریک اسلامی کے دستور طریق کار اور مزاج میں کوئی انحراف واقع ہوا۔ یہ توازن یہ اعتدال‘ یہ سوجھ بوجھ ، یہ حکمت اپنی نظیر آپ ہے اور ہماری آج کی قیادتوں کے لیے اس میں بڑی روشنی
اور رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا سعد الدین کی خدمات کو شرف قبول بخشے ، ان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ آمین! جو قبولیت عزت اکرام، محبت اور عقیدت ان کو ان کی بے لوث خدمت کی وجہ سے خود دنیا میں حاصل ہوئی وہ اس امر پر گواہ ہے کہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے تھے۔ جس طرح ان کا چرچا ان کی موت کے بعد بھی جاری رہا اور ان کی جاری کردہ دعوت اور پیغام مسلسل کمیت اور کیفیت ہر اعتبار سے روز افزوں ہے، اس کی بنا پر تو دل سے بے ساختہ یہ آواز نکلتی ہے ۔
بجھا ہے دل تو دل ہی دل کے چرچے ہیں
جو اس طرح سے موت آئے تو کون مرتا ہے
( مولانا سعد الدین کی یاد میں منعقد ہونے والے سیمی بار میں پڑھا گیا۔ اسلام آباد ۱۸ اپریل ۹۹

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “مولانا سعد الدین کی یاد میں”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »