ترجمان القرآن جلد ۱۱۶ عدد ۲
۸۴
نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء ۔ ایک جائزہ
ہوئے ہیں، بلکہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں، اللہ کے گھر میں حاضری کے لئے جاتے وقت ملک کی نمائندہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی کیا ہے، وہ اس وعدہ کی عدم تحمیل کی
صورت میں اپنے خُدا اپنی قوم اور اپنے ضمیر، تینوں کے سامنے مجرم ٹھہریں گے۔
شریعت کی بالا دستی کے لئے کی جانے والی جدوجہد پر ایک نظر تمنائیں اور دُعائیں اپنی جگہ، لیکن کیا ماضی کے حقیقت پسندانہ جائزہ سے یہ امید بندھ سکتی ہے کہ دستوری ترمیم کا وعدہ پورا ہو گا اور نفاذ شریعت کا کام واقعتا کسی راستہ پر لگ جائے گا ؟ سید ابواعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے جب چار نکاتی مطالبہ نظام اسلامی کے پیش کیا، تو اس کا اہم ترین نکتہ یہی تھا کہ قرآن و سنت کو بالا تر حیثیت حاصل ہو۔ قرآن و سنت کی بالاتری کے معنی تو موجودہ جاہلی نظام پر ایک ضرب کاری ہے۔ چنانچہ خوشنما الفاظ میں قرار دادِ مقاصد سے پاس ہو گئی، اس سے بھی زیادہ خوشنما الفاظ میں اسمبلی میں اس کا قصیدہ پڑھا گیا لیکن اس قرار دادِ مقاصد سے قرآن و سنت کی بالا تر حیثیت کے متعلق نکتہ غائب تھا۔ اور قرار دادِ مقاصد جس شکل میں پاس ہوئی۔ اس شکل میں بھی اس کو اتنا خطرناک سمجھا گیا کہ اس کو دستور کا واجب التنفیذ حصہ بنانے کے بجائے دیباچہ بناکر آویزاں کر دیا گیا۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ قرار دادِ مقاصد ایک بے معنی چیز تھی۔ نہیں، تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اہم سنگ میل تھی۔ اس نے ہمیشہ کے لئے ریاست کا رخ متعین کر دیا اور پاکستان کو اسلام کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ اسلامی دستور کے لئے جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی، لیکن جو کچھ حاصل ہوا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کی وہ ساری تعلیمات جو واجب التنفیذ ہونا چاہیے تھیں، وہ رہنما اصولوں کے طور پر دستور – دستور کے شروع میں سجا دی گئیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات دستور میں تسلیم کر لی گئی کہ کوئی قانون بھی قرآن و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، لیکن اس کے نفاذ کے لئے بھی کوئی طریق کار دستور میں شامل نہ کیا گیا۔ موجودہ قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل جیسا غیر موثر ادارہ تجویز کیا گیا۔ اس کی رپورٹیں پارلیمنٹ کے آگے رکھنے تک کو لازم نہ قرار دیا گیا۔ چنانچہ اگر کبھی اس کونسل نے سنجیدگی سے اپنا کام کیا تو اس کی ساری سفارشات دریا بُرد” نہ بھی کی جا سکیں تو فائلنگ کے لئے الماری بُرد” ضرور کی جاتی اے ملاحظہ فرمائیں : ضمیمہ ۱ – ۲؎ ملاحظہ فرمائیں : ضمیمہ نمبر ۲
رہیں۔
۲۸
نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱– ایک جائزہ
₨ 0
ترجمان القرآن جلد ۱۱۶ عدد ۲
۸۴
نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء ۔ ایک جائزہ
ہوئے ہیں، بلکہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں، اللہ کے گھر میں حاضری کے لئے جاتے وقت ملک کی نمائندہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی کیا ہے، وہ اس وعدہ کی عدم تحمیل کی
صورت میں اپنے خُدا اپنی قوم اور اپنے ضمیر، تینوں کے سامنے مجرم ٹھہریں گے۔
شریعت کی بالا دستی کے لئے کی جانے والی جدوجہد پر ایک نظر تمنائیں اور دُعائیں اپنی جگہ، لیکن کیا ماضی کے حقیقت پسندانہ جائزہ سے یہ امید بندھ سکتی ہے کہ دستوری ترمیم کا وعدہ پورا ہو گا اور نفاذ شریعت کا کام واقعتا کسی راستہ پر لگ جائے گا ؟ سید ابواعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے جب چار نکاتی مطالبہ نظام اسلامی کے پیش کیا، تو اس کا اہم ترین نکتہ یہی تھا کہ قرآن و سنت کو بالا تر حیثیت حاصل ہو۔ قرآن و سنت کی بالاتری کے معنی تو موجودہ جاہلی نظام پر ایک ضرب کاری ہے۔ چنانچہ خوشنما الفاظ میں قرار دادِ مقاصد سے پاس ہو گئی، اس سے بھی زیادہ خوشنما الفاظ میں اسمبلی میں اس کا قصیدہ پڑھا گیا لیکن اس قرار دادِ مقاصد سے قرآن و سنت کی بالا تر حیثیت کے متعلق نکتہ غائب تھا۔ اور قرار دادِ مقاصد جس شکل میں پاس ہوئی۔ اس شکل میں بھی اس کو اتنا خطرناک سمجھا گیا کہ اس کو دستور کا واجب التنفیذ حصہ بنانے کے بجائے دیباچہ بناکر آویزاں کر دیا گیا۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ قرار دادِ مقاصد ایک بے معنی چیز تھی۔ نہیں، تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اہم سنگ میل تھی۔ اس نے ہمیشہ کے لئے ریاست کا رخ متعین کر دیا اور پاکستان کو اسلام کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ اسلامی دستور کے لئے جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی، لیکن جو کچھ حاصل ہوا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کی وہ ساری تعلیمات جو واجب التنفیذ ہونا چاہیے تھیں، وہ رہنما اصولوں کے طور پر دستور – دستور کے شروع میں سجا دی گئیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات دستور میں تسلیم کر لی گئی کہ کوئی قانون بھی قرآن و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، لیکن اس کے نفاذ کے لئے بھی کوئی طریق کار دستور میں شامل نہ کیا گیا۔ موجودہ قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل جیسا غیر موثر ادارہ تجویز کیا گیا۔ اس کی رپورٹیں پارلیمنٹ کے آگے رکھنے تک کو لازم نہ قرار دیا گیا۔ چنانچہ اگر کبھی اس کونسل نے سنجیدگی سے اپنا کام کیا تو اس کی ساری سفارشات دریا بُرد” نہ بھی کی جا سکیں تو فائلنگ کے لئے الماری بُرد” ضرور کی جاتی اے ملاحظہ فرمائیں : ضمیمہ ۱ – ۲؎ ملاحظہ فرمائیں : ضمیمہ نمبر ۲
رہیں۔
۲۸
Reviews
There are no reviews yet.