اسلام نے ہمارے سامنے معاشی زندگی کا جو ہدف مقرر کیا ہے وہ انصاف کا قیام ہے اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان امت کے پاس اتنی معاشی، فنی اور عسکری قوت ہو کہ وہ دنیا کے سامنے حق کے گواہ شہداء علی الناس کی ذمہ داری ادا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے امت کو جو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس میں ساری دنیا کے سامنے اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی صلاحیت ہو۔ اس صلاحیت کے لیے جہاں کمال، قول و عمل کی اعلیٰ مثال ضروری ہے، وہاں اس کے لیے معاشی وسائل اور فنی مہارت کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم انت غیروں کی محتاج نہ ہو۔ اگر غیر امت کے ہم محتاج ہوں گے تو کبھی بھی ہم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکیں گے۔ یہ وہ مقاصد ہیں جو اسلام نے معاشنی زندگی کے لیے ہمیں دیے ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کے مطابق اسلام کا معاشی نظام مرتب ہوتا ہے۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ پاکستان میں گزشتہ بیالیس سالوں میں
کیا ہوا۔
آج تک یہاں سات معاشی منصوبے پیش کیے گئے ان ۴۲ سالوں میں ہم نے سرمایہ داری اور سرمایہ پرستی کا بھی اور اشتراکیت کا بھی تجربہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہم نے اسلام کے نام پر بھی کچھ چیزیں متعارف کرنے کی کوشش کی۔ اگر ایمانداری اور بے لاگ طرز پر اس پورے دور کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان ۴۲ سالوں میں ہم قوم کے معاشی مسائل حل اور معاشی دکھوں کا مداوا نہیں کر سکے۔ بحیثیت مجموعی ایک معاشی بحران سے دوسرے معاشی بحران، ایک مصیبت سے دوسری مصیبت کی طرف بڑھتے رہے۔ میں حالات کا تجزیہ کر کے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور اس میں میری نگاہ میں سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ ہم نے معاشی ترقی کو اصل مقصود بنایا۔ اور یہ معاشی ترقی حرام اور حلال سے ناآشنا تھی۔ اس کے نتیجے کے طور پر ملک میں دولت پرستی، ظلم و استحصال، وسائل کا ارتکاز ، بلا محنت امیر بن جانے کا جذبہ، غلط طریقوں سے اثرات کو بڑھانا، پر مٹ، روٹ پرمٹ، رشوت، کرپشن۔ یہ وہ تمام راستے ہیں، جنہیں اختیار کر کے ہم نے قوم کو ایسی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے کہ وہ اس توازن اور منقطۂ آغاز سے بہٹ گئے۔ اس لیے میری نگاہ میں سب سے پہلی خرابی آج تک ہماری منصوبہ بندی اور پالیسی میں یہ رہی ہے کہ ہم نے انصاف کو مقصد نہیں بنایا۔ ہم نے ضروریات کو پورا کرنے کا اپنا ہدف نہیں بنایا۔ بلکہ ہم نے ایک مجہول معاشی ترقی کو سامنے رکھ کر دولت پرستی، غلط طریقوں کے ارتکاز اور ظلم اور زیادتی کے راستے پر خود کو ڈال
دیا۔
دوسری چیز، یہ ہماری غلط ترجیحات ہیں ، جن میں میری نگاہ میں سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے زراعت کو نظر انداز کیا حالانکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ ہماری آبادی کا ۷۰ فیصد حصہ کے روز گار کا انحصار اس کی زندگی کا انحصار آج بھی زراعت کے اوپر ہے۔ ہماری تین چوتھائی آبادی دیہات میں رہتی ہے لیکن آج تک کی تمام معاشی منصوبہ بندی میں زراعت کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس کے حقوق ادا نہیں ہوئے، اس کی ترقی کے لیے کوئی جامع منصفانہ اور Scientific پروگرام نہیں بنایا گیا۔ دوسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ معاشی منصوبہ میں کن چیزوں کو پیدا کرنا اور فراوانی کن چیزوں کی ہونی چاہیے۔ اس کے بارے میں ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ ہمارے معاشرے کی ضروریات کیا ہیں۔ ہم نے اس میں دوسروں کی نقالی کی۔ ہیں ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ ہم ہمیشہ سے کچھ مشروبات پیتے رہے ہیں۔ دودھ ہے، کسی ہے، شربت ہے، ان تمام میں غذائیت بھی اور لذت بھی تھی لیکن ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں مغربی ممالک میں تیار کیے جانے والے کو کا کولا، پیپسی کولا . سیون اپ وغیرہ وغیرہ کو زیادہ اہمیت دی۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج یہ غریب ملک جہاں کی تعلیم،
آبادی کا۴ فیصد کم سے کم اپنی ضروریات نہیں پوری کر سکتا۔ ہم ان مغربی نوعیت کے مشروبات پر ۴۴۰ کروڑ روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کیا چیز دی۔ غذائیت ملی نہ طاقت ملی۔ بلکہ مقامی چیزیں تباہ ہو گئیں۔ ہم نے حقیقی ضروریات کو متعین کر کے ان ضروریات کو پورا کرنے والی اشیاء کی فراوانی کا اہتمام نہیں کیا۔ بلکہ اس کے مقابلے میں لوگوں میں مصنوعی طلب پیدا کی۔ سماجی خدمات، جس میں سب سے اہم سڑکیں، صاف پانی کی فراہمی، بجلی کی فراہمی، ٹرانسپورٹ کی سہولت جیسی چیزیں ہمارے ہاں نظر انداز ہوئیں۔ آج عالم یہ ہے کہ ان میں سے ہر سہولت دم توڑ رہی ہے۔ جو حکومت آتی ہے ہر دوسرے تیسرے مہینے کے بعد قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشی قتل اسی طرح ہے۔ معاشی اصطلاح میں اس کو Economic Enficture کہتے ہیں۔ جس کے بغیر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے جس میں افراد صحیح طور پر معاشی کوشش کر سکیں۔ ہم نے اس کے مقابلے میں مسرفانہ معاشرہ بنایا۔ ٹی وی کے اشتہار دیکھیے۔ اخبارات کے اشتہارات دیکھیے جو پروگرام ہمارے ریڈیو، ٹی وی میں پیش کیے جاتے ہیں ان کو دیکھیے۔ ان کا کوئی تعلق ہمارے معاشرے سے اس کی سطح زندگی سے، اس کے حالات سے نہیں اور ان کے ذریعے معاشرے کے اندر ایک ایسی مصنوعی طلب پیدا کی جا رہی ہے۔ ایک ایسی پیاس پیدا کی جا رہی ہے جسے کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا اور جو صرف سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری پر جاکر کے منتج ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی ناخواندہ ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی مادری زبان یا اردو میں بھی کسی چیز کو نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ تعلیم یافتہ کو جاننا چاہیں تو اس ملک میں وہ افراد جنہوں نے کسی نوعیت کی کوئی تعلیم حاصل کی ہے وہ آبادی کا صرف ۵ فیصد ہیں۔ ۹۵ فیصد تعلیم سے محروم ہیں۔ اس ملک میں صرف ۳۵ فیصد افراد تک بجلی کی سہولت پہنچی۔ ۶۵ فیصد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ صرف شہروں میں ۸۰ فیصد اور دیہات میں ۴۵ فیصد افراد ایسے ہیں کہ جن کو صاف پانی میسر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آدھی آبادی ایسی ہے جسے پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ کراچی جیسا شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ملک کی دولت کا ۵۰ فیصد تقریباً وہاں ہے۔ آج وہ شہر تباہ ہے وہاں کی ۴۰ فیصد آبادی کچی بستیوں میں رہ رہی ہے۔ ان کے پاس اپنے سر چھپانے کے لیے پختہ مکان نہیں ہے۔ بارش سے بچنے اور سیوریج کی کوئی سہولت ان کو حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی شرح اموات ۸۰ فیصد ہے جو دنیاکے پسماندہ ترین ممالک کی صف میں ہم کو لے جاتی ہے۔ مکان کی سہولت کی شرح کیا ہے؟ ۱۹۸۰ ء کے تازہ ترین ہاؤسنگ شماریات سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ۲۰ سال پہلے جو سہولت مکانوں کی حاصل تھی۔ اس میں ۳۰ فیصد کمی واقع ہوئی۔ یعنی
Reviews
There are no reviews yet.