۱۴
میں چلی جائے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں، اس دن قریش کو اور زیادہ عزت حاصل ہو گی۔ پھر فتح مکہ کے بعد چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ کتے کی چابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں آئی اور آپ نے کمال حلم و بردباری سے یہ چابی پھر انھی کو سونپ دی اور فرمایا: ”یہ کنجی لو! یہ قیامت تک تمھارے ہی خاندان میں رہے گی۔ ظالم اور جابر کے سوا کوئی اسے تم سے نہیں چھینے گا”۔ حضرت عثمان! کہتے ہیں کہ مجھے حضور کے وہ الفاظ یاد تھے جو آپ نے مکہ میں مظلومی کے زمانے میں کہے تھے اور میں نے برملا اعلان کیا: “یقیناً جو آپ نے فرمایا تھا، وہی ہوا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بچے رسول ہیں”۔ ایک طرف کی دور کی سختیاں اور مجبوریاں ہیں تو دوسری طرف دائی کا عزم و بصیرت اور مشن اور منزل کا واضح شعور۔ اٹھی حالات میں معراج کا واقعہ ہوتا ہے جو تحریک اور اس کے مشن کی راہ میں ایک سنگ میل اور اس دعوت کے اصل مزاج اور کردار کا بہترین مظہر ہے۔ جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے ، آپ کا اصل منشی محض عرفان ذات نہ تھا بلکہ رسول عربی کا اصل مشن رب کائنات سے اتنے قرب اور نور الہی سے بلاواسطہ فیضیاب ہونے کے بعد جو روشنی حاصل ہوئی تھی، اس سے دنیائے انسانیت کو منور کرنا تھا۔ ایک عظیم صوفی بزرگ مولانا عبد القدوس گنگوہی کے تاریخی جملے: “اگر میں حضور کی جگہ ہوتا تو ذات باری کے اتنا قریب پہنچنے کے بعد واپس نہ آتا” پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے اسلامی الہیات کی تشکیل جدید” میں صحیح کہا ہے کہ نبی کے تصور دین اور محدود مذہبیت کے تصور میں یہی فرق ہے۔ ایک اپنی ذات کے عرفان کا متلاشی ہے اور دوسرا معرفت ذات کے بعد انسانیت کی تخلیق نو اور ایک نئے انسان نئے معاشرے اور نئی تاریخ کی تعمیر کو اپنا نصب العین بناتا ہے اور یہی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی کارنامہ ہے۔ دیکھیے خود قرآن اس پر کس طرح دلالت کرتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی جن آیات میں واقعہ اسراء بیان ہوا وہیں دعوت نبوی اور اسلامی تحریک کا عالمی منشور پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کا یہ فرستادہ بندہ ان بلندیوں کو چھونے کے بعد اب انسانیت کو بلندیوں کی طرف بلانے اور نئے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرے گا۔ ہجرت کا اشارہ بھی اٹھی آیات میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کی زبان پر اس وقت جو دعا جاری و ساری فرمائی ہے وہ مدنی دور کی پیش بینی اور اسلام کے لیے اقتدار اور قوت کی بشارت کی خبر دیتی ہے۔ وقُل رَّبِّ
سیرتِ پاک کا تاریخی کردار
₨ 0
۱۴
میں چلی جائے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں، اس دن قریش کو اور زیادہ عزت حاصل ہو گی۔ پھر فتح مکہ کے بعد چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ کتے کی چابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں آئی اور آپ نے کمال حلم و بردباری سے یہ چابی پھر انھی کو سونپ دی اور فرمایا: ”یہ کنجی لو! یہ قیامت تک تمھارے ہی خاندان میں رہے گی۔ ظالم اور جابر کے سوا کوئی اسے تم سے نہیں چھینے گا”۔ حضرت عثمان! کہتے ہیں کہ مجھے حضور کے وہ الفاظ یاد تھے جو آپ نے مکہ میں مظلومی کے زمانے میں کہے تھے اور میں نے برملا اعلان کیا: “یقیناً جو آپ نے فرمایا تھا، وہی ہوا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بچے رسول ہیں”۔ ایک طرف کی دور کی سختیاں اور مجبوریاں ہیں تو دوسری طرف دائی کا عزم و بصیرت اور مشن اور منزل کا واضح شعور۔ اٹھی حالات میں معراج کا واقعہ ہوتا ہے جو تحریک اور اس کے مشن کی راہ میں ایک سنگ میل اور اس دعوت کے اصل مزاج اور کردار کا بہترین مظہر ہے۔ جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے ، آپ کا اصل منشی محض عرفان ذات نہ تھا بلکہ رسول عربی کا اصل مشن رب کائنات سے اتنے قرب اور نور الہی سے بلاواسطہ فیضیاب ہونے کے بعد جو روشنی حاصل ہوئی تھی، اس سے دنیائے انسانیت کو منور کرنا تھا۔ ایک عظیم صوفی بزرگ مولانا عبد القدوس گنگوہی کے تاریخی جملے: “اگر میں حضور کی جگہ ہوتا تو ذات باری کے اتنا قریب پہنچنے کے بعد واپس نہ آتا” پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے اسلامی الہیات کی تشکیل جدید” میں صحیح کہا ہے کہ نبی کے تصور دین اور محدود مذہبیت کے تصور میں یہی فرق ہے۔ ایک اپنی ذات کے عرفان کا متلاشی ہے اور دوسرا معرفت ذات کے بعد انسانیت کی تخلیق نو اور ایک نئے انسان نئے معاشرے اور نئی تاریخ کی تعمیر کو اپنا نصب العین بناتا ہے اور یہی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی کارنامہ ہے۔ دیکھیے خود قرآن اس پر کس طرح دلالت کرتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی جن آیات میں واقعہ اسراء بیان ہوا وہیں دعوت نبوی اور اسلامی تحریک کا عالمی منشور پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کا یہ فرستادہ بندہ ان بلندیوں کو چھونے کے بعد اب انسانیت کو بلندیوں کی طرف بلانے اور نئے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرے گا۔ ہجرت کا اشارہ بھی اٹھی آیات میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کی زبان پر اس وقت جو دعا جاری و ساری فرمائی ہے وہ مدنی دور کی پیش بینی اور اسلام کے لیے اقتدار اور قوت کی بشارت کی خبر دیتی ہے۔ وقُل رَّبِّ
Reviews
There are no reviews yet.