شریعت بل، اصل مقصد و ضرورت اور اعتراضات کا جائزہ

 0

اداراتی خلفشار کی طرف
Chaos)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ شریعت بل دستور کے خاتمے اور اداراتی خلفشار
(Institution
کی طرف لے جائے گا۔ یہ اندیشہ بھی کوئی بنیا د نہیں رکھنا۔ ملک کی عدلیہ اسی طرح کا
ایک ذمہ دار ادارہ ہے میں طرح کہ دوسرے ادار ہے۔ عدلیہ کا کردار یہ رہا ہے کہ اس نے ملک میں صحت مند روایات قائم کی ہیں۔ معاشرے کے اداروں کے تحفظ میں دوسرے بہت سے عناصر کے مقابلہ میں جو آج استحکام کے محافظ ہونے کے مدعی ہیں، ان میں سے زیادہ عدلیہ کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی خلفشار پیدا کر نے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اداراتی خلفشار کے خطرات کا ہوا دکھا رہے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت گذشتہ آٹھ برس سے کام کر رہی ہے اور اس نے اپنا کردار بڑی احتیاط سے انجام دیا ہے ۔ یہ یقین کرنا بلا وجہ ہے کہ شریعت بل منظور ہوتے ہی یہ غیر محتاط ہو جائے گی اور اندھا دھند چلنے لگے گی۔ یہ اندیشے محض خیالی ہیں۔ ان میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں۔ یہ عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے مترادف ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدلیہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس نے ملک کو خلفشار سے بچانے کی کئی مرتبہ کامیاب کوشش کی اور اسے تباہی کے منہ میں جانے نہیں دیا۔ بعض اوقات کچھ مراعات دے کر بھی اس نے اپنا فرض ادا کیا ۔ مولوی تمیز الدین خان کے مقدمے میں جسٹس منیر کے فیصلے پر بعض لوگوں کو حقیقی تحفظات ہوں گے اور راقم سطور کو بھی ہیں، لیکن یہ وفاقی عدالت ہی سختی جس نے ملک کو دستوری خلا میں گرنے سے روکا اور اس کے نتیجے میں ملک کو ۱۹۵۶ء کا دستور ملا ۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے مارشل لاء کے نفاذ سے پیدا ہونے والے مسائل کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی اس کی مثالیں دوسا کیس، عاصمہ جیلانی کیس اور نصرت بھٹو کیس میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب عبوری دستور کا حکم (Rivisional Constitutional Order) نافذ ہوا تو
اسی وقت پر یم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے متعد د جوں نے استعفے دے دیئے ۔ عدلیہ نے ملک کو قانون کی حکومت کی طرف واپس لانے کے لیے جو کر دار ادا کیا اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ نے سیاسی انحرافات سے ملک کو بچانے کی ہر مکن کوشش کی ہے اور اس نے اپنے کردار سے رکاوٹوں اور توازن (Cheeks and Balances) کے
اصول کو قوت بہم پہنچانی ہے ۔
یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ نو آبادیاتی دور کے بعض ادارے اور روایات بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ اب تک اس لیے باقی رہے ہیں کہ معاشرے کو نئی شکل دینے میں شریعت اپنا جو کر دار ادا کر سکتی تھی اس کی اسے اجازت نہیں دی گئی ۔ اگر شریعیت کی بالا دستی فی الواقع ہو گئی تو اس سے معاشرے میں حقیقی صحت مند تبدیلی لانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ به مفاد پرست لوگ ہیں جنہیں اس عمل سے خوف زدہ ہونا چاہیے نہ کہ عام آدمی جو اس تبدیلی کی پر شوق آرزو دل میں قائم کیے ہوئے ہیں ۔ اس سمت میں ہم جس قدر جلد بڑھیں گے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔ شریعیت بل ایک تدریجی اور قانونی عمل کے ذریعے اس مطلوبہ تبدیلی کو یقینی
بنا سکتا ہے۔
علامہ اقبال اور تشریعیت بل
اس سلسلے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ یہ دونوں عظیم رہنما پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جس میں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور جو مسلمانوں کو قرآن وسنت کے اصولوں پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے قابل بنائے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ چالیس برس کے عرصے میں ہم علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصور سے دور ہی ہوتے گئے ہیں۔ شریعت بل ہماری ان کوششوں کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کو اس کے حقیقی اسلامی تصور کے قریب لانے کے لیے کی جارہی ہیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ اقتدار و اختیار ایک امانت ہے جسے عوام کے منتخب نمائندے قرآن و سنت کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کر سکتے ہیں۔ شریعیت بل اس تصور کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہوگی ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدات اسے مشورہ دیں گی۔ عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ ان کے سامنے جوابدہ ہے اور اگر عوام اسلام پر ایمان رکھتے ہیں تو مجلس قانون ساز اور عدلیہ دونوں کو اس کردار کی تکمیل میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ہے وہ صورت جس کا اقبال نے تصور کیا تھا ۔ اقبال منتخبہ اسمبلی چاہتے تھے تاکہ وہ اسلامی قانون بنانے میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکے، لیکن انہیں اکثر قانون سازوں کی نظریاتی اہلیت و استعداد کے بارے میں تشویش تھی ۔ اقبال نے بالکل ٹھیک سمجھا تھا کہ شورائی اجتہاد وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اقبال یہ مجھتے تھے کہ یہ کام لادینی جمہوریت کے طرز پر منتخب ہونے والی اسمبلیاں انجام دے سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا : ہم جدید اسلام میں لبرل تحریک کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ اسلام میں لبرل تصورات کا ظہور اسلامی تاریخ کے نازک ترین لھے کو تشکیل دیتا ہے لبرلزم انتشار و انقراض کی صورت میں عمل
کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔“
تسلسل اور تبدیلی کے درمیان توازن کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے اقبال تشکیل نو .
(Reconstruction)
میں کہتے ہیں :
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ زندگی محض ایک سیدھی سادی تبدیلی نہیں ہے وہ اپنے اندر قدامت پسندی کے عناصر بھی رکھتی ہے … زندگی اپنی پشت پر خود اپنے ماضی کا بوجھ لیے سفر کرتی ہے اور یہ کہ اجتماعی تبدیلی کے پیش نظر قدامت پسند طاقتوں کی قدروں اور کام کو نگاہوں سے اوجبل
نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کی بنیادی تعلیمات نامیاتی بصیرت ہے جس کو ساتھ لے کر جدید عقلیت پرستی کو ہمارے موجو د اداروں کے نزدیک جانا چاہیے۔ کوئی قوم بھی اپنے ماضی کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا یارا نہیں رکھتی ۔ یہ اس کا ماضی بھی ہے جس نے اسے انفرادی شخص دیا ہے۔ اسلام ایسے معاشرے میں پرانے اداروں پر نظر ثانی کا مسئلہ اور بھی نازک ہو جاتا ہے اور مصلح کی ذمہ داری کہیں زیادہ سنگین پہلو رکھتی ہے ….. اس قسم کے معاشرے کے ارتقا میں کھانے پینے اور طہارت و نجاست کے بے ضرر آداب بھی اپنے اندر بجائے خود زندگی کی قدر رکھتے ہیں ۔ یہ قدر ایسے معاشرے کو ایک مخصوص داخلیت سے نوازتی ہے اور اس داخلی اور خارجی یکسانیت کی حفاظت کرتی ہے جو ایسے ملے جلے معاشرے میں ہمیشہ سے پنہاں مختلف العناصر قوتوں کا توڑ کرتی ہے۔ بنا بریں ان اداروں کے نقادوں کو انہیں ہاتھ میں لینے کا بیڑا اٹھانے سے پہلے اپنے اندر اسلام میں جو معاشرتی بنجر بہ محتم ہے اس کے بارے میں واضح بصیرت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔”
اقبال جہاں قانون ساز اسمبلیوں کے کردار پر زور دیتے ہیں وہاں یہ بھی صاف طور
پر کہتے ہیں : علماء کو مسلم قانون ساز اسمبلی کا موثر حصہ ہونا چاہیے جو قانون کے مسائل میں اعانت اور آزادانہ بحث مباحثے میں رہنمائی کریں غلط تعبیرات کے امکانات کا واحد موثر علاج یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں موجودہ قانونی تعلیم کے نظام کی اصلاح کی جائے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اسے اصولِ
قانون کے معقول مطالعہ کے ساتھ مربوط کیا جائے ۔
(Reconstruction P.176)
بعد ازاں انہوں نے ۱۹۳۲ء میں اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا : ” میری تجویز یہ ہے کہ علماء کی اسمبلی تشکیل دی جائے جس میں وہ مسلمان قانون دان بھی شامل کیے جائیں جنہوں نے جدید اصول قانون کی تعلیم حاصل کی ہے مقصد یہ ہے کہ جدید حالات کی روشنی میں اسلامی قانون کا تحفظ کیا جائے، اسے وسعت دی جائے اور اگر ضروری ہو تو اس کی دوبارہ توضیح و تعبیر کی جائے اور اس ضمن میں اس کے بنیادی اصولوں میں جو روح مضمر ہے اس کے قریب رہتے ہوئے اس اسمبلی کو دستوری طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے شخصی قانون کو متاثر کرنے والا کوئی بل اس اسمبلی کٹھالی سے گزرنے سے پہلے ت نون سازی پر نہ رکھا جائے “ Speeches and Statements) نون نہ علامہ اقبال نے ۱۹۳۲ء میں مسلمانوں کے شخصی قانون کے بارے میں سوچا تھا۔ کیا یہ دیکھنا مشکل ہے کہ پاکستان کے دستور میں جو اسکیم پیش کی گئی ہے اور شریعت بل نے ہو تبدیلیاں تجویز کی ہیں ان سے معاملات اقبال کے حقیقی تصور کے قریب تر آ جاتے ہیں۔ البتہ ضرورت ہے کہ ہم پورے اقبال میں دلچسپی لیں نہ کہ اپنے پہلے سے ملے کہ وہ موقف کو سہارا دینے کے لیے اس کے افکار کچھ ادھر سے اچکتے پھریں۔
شریعیت مل اور دستور
of Iqbal, P.60)
کچھ افراد اس بات کو بھی بہت اچھال رہے ہیں کہ شریعیت بل اور دستور کی چند دفعات میں تصادم ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم شریعیت کی بالادستی کے قائل ہیں لیکن شریعیت بل کے نہیں ۔ ہم ان سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر دستور کی چند دفعات فی الحقیقت شریعیت کی بالا دستی کی راہ میں حائل ہیں تو ان دفعات کو جلد از جلد تبدیل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کے لیے ایسی دفعات کو ایک دن کے لیے بھی گوارا کرنا جائز نہیں جو اسے شریعت پر عمل کرنے

SKU: 6849817303b2c8619f33cc8a Categories: , ,

اداراتی خلفشار کی طرف
Chaos)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ شریعت بل دستور کے خاتمے اور اداراتی خلفشار
(Institution
کی طرف لے جائے گا۔ یہ اندیشہ بھی کوئی بنیا د نہیں رکھنا۔ ملک کی عدلیہ اسی طرح کا
ایک ذمہ دار ادارہ ہے میں طرح کہ دوسرے ادار ہے۔ عدلیہ کا کردار یہ رہا ہے کہ اس نے ملک میں صحت مند روایات قائم کی ہیں۔ معاشرے کے اداروں کے تحفظ میں دوسرے بہت سے عناصر کے مقابلہ میں جو آج استحکام کے محافظ ہونے کے مدعی ہیں، ان میں سے زیادہ عدلیہ کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی خلفشار پیدا کر نے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اداراتی خلفشار کے خطرات کا ہوا دکھا رہے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت گذشتہ آٹھ برس سے کام کر رہی ہے اور اس نے اپنا کردار بڑی احتیاط سے انجام دیا ہے ۔ یہ یقین کرنا بلا وجہ ہے کہ شریعت بل منظور ہوتے ہی یہ غیر محتاط ہو جائے گی اور اندھا دھند چلنے لگے گی۔ یہ اندیشے محض خیالی ہیں۔ ان میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں۔ یہ عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے مترادف ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدلیہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس نے ملک کو خلفشار سے بچانے کی کئی مرتبہ کامیاب کوشش کی اور اسے تباہی کے منہ میں جانے نہیں دیا۔ بعض اوقات کچھ مراعات دے کر بھی اس نے اپنا فرض ادا کیا ۔ مولوی تمیز الدین خان کے مقدمے میں جسٹس منیر کے فیصلے پر بعض لوگوں کو حقیقی تحفظات ہوں گے اور راقم سطور کو بھی ہیں، لیکن یہ وفاقی عدالت ہی سختی جس نے ملک کو دستوری خلا میں گرنے سے روکا اور اس کے نتیجے میں ملک کو ۱۹۵۶ء کا دستور ملا ۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے مارشل لاء کے نفاذ سے پیدا ہونے والے مسائل کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی اس کی مثالیں دوسا کیس، عاصمہ جیلانی کیس اور نصرت بھٹو کیس میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب عبوری دستور کا حکم (Rivisional Constitutional Order) نافذ ہوا تو
اسی وقت پر یم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے متعد د جوں نے استعفے دے دیئے ۔ عدلیہ نے ملک کو قانون کی حکومت کی طرف واپس لانے کے لیے جو کر دار ادا کیا اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ نے سیاسی انحرافات سے ملک کو بچانے کی ہر مکن کوشش کی ہے اور اس نے اپنے کردار سے رکاوٹوں اور توازن (Cheeks and Balances) کے
اصول کو قوت بہم پہنچانی ہے ۔
یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ نو آبادیاتی دور کے بعض ادارے اور روایات بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ اب تک اس لیے باقی رہے ہیں کہ معاشرے کو نئی شکل دینے میں شریعت اپنا جو کر دار ادا کر سکتی تھی اس کی اسے اجازت نہیں دی گئی ۔ اگر شریعیت کی بالا دستی فی الواقع ہو گئی تو اس سے معاشرے میں حقیقی صحت مند تبدیلی لانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ به مفاد پرست لوگ ہیں جنہیں اس عمل سے خوف زدہ ہونا چاہیے نہ کہ عام آدمی جو اس تبدیلی کی پر شوق آرزو دل میں قائم کیے ہوئے ہیں ۔ اس سمت میں ہم جس قدر جلد بڑھیں گے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔ شریعیت بل ایک تدریجی اور قانونی عمل کے ذریعے اس مطلوبہ تبدیلی کو یقینی
بنا سکتا ہے۔
علامہ اقبال اور تشریعیت بل
اس سلسلے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ یہ دونوں عظیم رہنما پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جس میں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور جو مسلمانوں کو قرآن وسنت کے اصولوں پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے قابل بنائے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ چالیس برس کے عرصے میں ہم علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصور سے دور ہی ہوتے گئے ہیں۔ شریعت بل ہماری ان کوششوں کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کو اس کے حقیقی اسلامی تصور کے قریب لانے کے لیے کی جارہی ہیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ اقتدار و اختیار ایک امانت ہے جسے عوام کے منتخب نمائندے قرآن و سنت کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کر سکتے ہیں۔ شریعیت بل اس تصور کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہوگی ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدات اسے مشورہ دیں گی۔ عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ ان کے سامنے جوابدہ ہے اور اگر عوام اسلام پر ایمان رکھتے ہیں تو مجلس قانون ساز اور عدلیہ دونوں کو اس کردار کی تکمیل میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ہے وہ صورت جس کا اقبال نے تصور کیا تھا ۔ اقبال منتخبہ اسمبلی چاہتے تھے تاکہ وہ اسلامی قانون بنانے میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکے، لیکن انہیں اکثر قانون سازوں کی نظریاتی اہلیت و استعداد کے بارے میں تشویش تھی ۔ اقبال نے بالکل ٹھیک سمجھا تھا کہ شورائی اجتہاد وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اقبال یہ مجھتے تھے کہ یہ کام لادینی جمہوریت کے طرز پر منتخب ہونے والی اسمبلیاں انجام دے سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا : ہم جدید اسلام میں لبرل تحریک کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ اسلام میں لبرل تصورات کا ظہور اسلامی تاریخ کے نازک ترین لھے کو تشکیل دیتا ہے لبرلزم انتشار و انقراض کی صورت میں عمل
کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔“
تسلسل اور تبدیلی کے درمیان توازن کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے اقبال تشکیل نو .
(Reconstruction)
میں کہتے ہیں :
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ زندگی محض ایک سیدھی سادی تبدیلی نہیں ہے وہ اپنے اندر قدامت پسندی کے عناصر بھی رکھتی ہے … زندگی اپنی پشت پر خود اپنے ماضی کا بوجھ لیے سفر کرتی ہے اور یہ کہ اجتماعی تبدیلی کے پیش نظر قدامت پسند طاقتوں کی قدروں اور کام کو نگاہوں سے اوجبل
نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کی بنیادی تعلیمات نامیاتی بصیرت ہے جس کو ساتھ لے کر جدید عقلیت پرستی کو ہمارے موجو د اداروں کے نزدیک جانا چاہیے۔ کوئی قوم بھی اپنے ماضی کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا یارا نہیں رکھتی ۔ یہ اس کا ماضی بھی ہے جس نے اسے انفرادی شخص دیا ہے۔ اسلام ایسے معاشرے میں پرانے اداروں پر نظر ثانی کا مسئلہ اور بھی نازک ہو جاتا ہے اور مصلح کی ذمہ داری کہیں زیادہ سنگین پہلو رکھتی ہے ….. اس قسم کے معاشرے کے ارتقا میں کھانے پینے اور طہارت و نجاست کے بے ضرر آداب بھی اپنے اندر بجائے خود زندگی کی قدر رکھتے ہیں ۔ یہ قدر ایسے معاشرے کو ایک مخصوص داخلیت سے نوازتی ہے اور اس داخلی اور خارجی یکسانیت کی حفاظت کرتی ہے جو ایسے ملے جلے معاشرے میں ہمیشہ سے پنہاں مختلف العناصر قوتوں کا توڑ کرتی ہے۔ بنا بریں ان اداروں کے نقادوں کو انہیں ہاتھ میں لینے کا بیڑا اٹھانے سے پہلے اپنے اندر اسلام میں جو معاشرتی بنجر بہ محتم ہے اس کے بارے میں واضح بصیرت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔”
اقبال جہاں قانون ساز اسمبلیوں کے کردار پر زور دیتے ہیں وہاں یہ بھی صاف طور
پر کہتے ہیں : علماء کو مسلم قانون ساز اسمبلی کا موثر حصہ ہونا چاہیے جو قانون کے مسائل میں اعانت اور آزادانہ بحث مباحثے میں رہنمائی کریں غلط تعبیرات کے امکانات کا واحد موثر علاج یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں موجودہ قانونی تعلیم کے نظام کی اصلاح کی جائے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اسے اصولِ
قانون کے معقول مطالعہ کے ساتھ مربوط کیا جائے ۔
(Reconstruction P.176)
بعد ازاں انہوں نے ۱۹۳۲ء میں اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا : ” میری تجویز یہ ہے کہ علماء کی اسمبلی تشکیل دی جائے جس میں وہ مسلمان قانون دان بھی شامل کیے جائیں جنہوں نے جدید اصول قانون کی تعلیم حاصل کی ہے مقصد یہ ہے کہ جدید حالات کی روشنی میں اسلامی قانون کا تحفظ کیا جائے، اسے وسعت دی جائے اور اگر ضروری ہو تو اس کی دوبارہ توضیح و تعبیر کی جائے اور اس ضمن میں اس کے بنیادی اصولوں میں جو روح مضمر ہے اس کے قریب رہتے ہوئے اس اسمبلی کو دستوری طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے شخصی قانون کو متاثر کرنے والا کوئی بل اس اسمبلی کٹھالی سے گزرنے سے پہلے ت نون سازی پر نہ رکھا جائے “ Speeches and Statements) نون نہ علامہ اقبال نے ۱۹۳۲ء میں مسلمانوں کے شخصی قانون کے بارے میں سوچا تھا۔ کیا یہ دیکھنا مشکل ہے کہ پاکستان کے دستور میں جو اسکیم پیش کی گئی ہے اور شریعت بل نے ہو تبدیلیاں تجویز کی ہیں ان سے معاملات اقبال کے حقیقی تصور کے قریب تر آ جاتے ہیں۔ البتہ ضرورت ہے کہ ہم پورے اقبال میں دلچسپی لیں نہ کہ اپنے پہلے سے ملے کہ وہ موقف کو سہارا دینے کے لیے اس کے افکار کچھ ادھر سے اچکتے پھریں۔
شریعیت مل اور دستور
of Iqbal, P.60)
کچھ افراد اس بات کو بھی بہت اچھال رہے ہیں کہ شریعیت بل اور دستور کی چند دفعات میں تصادم ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم شریعیت کی بالادستی کے قائل ہیں لیکن شریعیت بل کے نہیں ۔ ہم ان سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر دستور کی چند دفعات فی الحقیقت شریعیت کی بالا دستی کی راہ میں حائل ہیں تو ان دفعات کو جلد از جلد تبدیل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کے لیے ایسی دفعات کو ایک دن کے لیے بھی گوارا کرنا جائز نہیں جو اسے شریعت پر عمل کرنے

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “شریعت بل، اصل مقصد و ضرورت اور اعتراضات کا جائزہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »