کارکنان تحریک اسلامی اور چند بنیادی امور

 0

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دوررس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالم اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی اسلام کے اصولوں اور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو ۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تکیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔ ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی ، اور اگر ہم کو تا ہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے ، ارکان
اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں: کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟ اس قافلہ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصّہ کتنا ہے؟ . کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلے ، گاؤں اور شہر میں اس دعوت حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
. کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی ، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہر موڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
.

SKU: 6849817303b2c8619f33cc3c Categories: , ,

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دوررس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالم اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی اسلام کے اصولوں اور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو ۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تکیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔ ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی ، اور اگر ہم کو تا ہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے ، ارکان
اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں: کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟ اس قافلہ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصّہ کتنا ہے؟ . کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلے ، گاؤں اور شہر میں اس دعوت حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
. کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی ، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہر موڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
.

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “کارکنان تحریک اسلامی اور چند بنیادی امور”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »